• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ساحل گوادر سے تا بہ خاک کاشغر۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ساحل گوادر سے تا بہ خاک کاشغر۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ہم کچھ لوگ ماؤزے تنگ کے بے حد مداح ہوا کرتے تھے۔ اسلامی جمعیت طلباء میں شامل ہمارے دوست ہمیں “سرخے” کہتے تھے۔ ماؤ زے تنگ کی مداحی کی پاداش میں نہیں بلکہ ان کا خیال تھا کہ ہم کمیونسٹ ہیں۔ پر ان کے لیے ماؤزے تنگ اور چو این لائی کمیونسٹ نہیں تھے اس لیے کہ پاک چین دوستی تب بھی تھی یعنی 1970 کے عشرے کے پہلے حصے میں۔ کمیونسٹ کا مطلب روس نواز ہوتا تھا، چین کے حامیوں کو اتنا کمیونسٹ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پاک چین دوستی کو فروغ تو بھٹو نے دیا تھا لیکن چونکہ بھیڑیں ہنکا لے جانے کے مبینہ الزام کی وجہ سے چین کی بھی ہندوستان سے جنگ ہو چکی تھی اس لیے دشمن کا دشمن دوست خیال کیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تب ہمیں مارکسسٹ یہی سبق دیا کرتے تھے کہ روسی “ترمیم پسند” ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ لوگ مارکسزم کو بھی کوئی الہامی نظریہ سمجھتے تھے جس میں ترمینم کرنا یا اس کے اجزاء سے انحراف کرنا “گناہ کرنے” کے مترادف تھا۔
چین سے دوستی کی ایک وجہ اس کا قریبی ہمسایہ ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ درہ خنجراب اس علاقے میں آتا ہے جسے ہمارا باقاعدہ ہمسایہ ملک ہندوستان “مقبوضہ کشمیر” کہتا ہے۔ اس کے کہنے سے کیا ہوتا ہے، گلگت، ہنزہ، بلتستان والے تو اپنے علاقے کو تاحال “مقبوضہ” تصور نہیں کرتے۔ پھر ہم نے “چین پاکستان معاشی کاریڈور” کے منصوبے کے منظر عام پر آنے سے کچھ ہی پہلے، پینسٹھ سالوں کے بعد اس علاقے کو صوبے کی شکل بھی دے دی ہے۔ کشمیر کے جس حصے کو ہم “مقبوضہ” کہتے ہیں، وہاں عرصہ دراز سے آزادی کے لیے پرامن اور پاکستان کے ساتھ جوڑے جانے کے حق میں مسلح جدوجہد جاری ہے۔ دوسری جانب ہندوستان کی عملداری میں آنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مقبوضہ کشمیر کو “ریاست جموں و کشمیر” کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
چینیوں نے شاہراہ قراقرم تو 1970 کی دہائی میں ہی بنا کر رواں کر دی تھی۔ تکنیکی ماہرین چینی تھے جبکہ ایف ڈبلیو او کے نام سے ایک فوجی ادارہ، اس دور دراز دشوار گزار علاقے میں تقریبا” بیگار لینے کی خاطر بھیجے ہوئے لوگوں سے یہ سڑک بنوا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے ہر کلومیٹر میں کئی لوگوں کی جان یا ان کا خون شامل ہے۔ میں نے اس سڑک کو بنتے دیکھا ہے۔ بیگار میں لائے گئے لوگوں کی داستانوں سے اور چینیوں کی کارگزاری سے براہ راست آشنائی رہی ہے۔
تمہید سے مراد یہ ہے کہ سڑک تو پہلے سے موجود ہے۔ اسے بھاری ٹریفک کے لیے زیادہ موزوں بنانا ہوگا۔ ریلوے ٹریک بھی بچھایا جا سکتا ہے جو یہ سڑک بنائے جانے کی طرح مشکل اور مہنگا کام ہوگا۔
اس منصوبے پر عمل درآمد کے حوالے سے ہندوستان کا چیں بچیں ہونا قابل فہم ہے۔ سرحدی و علاقائی تنازعے کی مد میں اس علاقے کے مصرف پر اعتراض کے علاوہ جو زیادہ اہم بات ہو سکتی ہے وہ ہندوستان کا خدشہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت چین کی فوج پاکستان کی اعانت سے اس خطے میں داخل ہو کر اروناچل پردیش کے علاوہ اس جانب سے بھی اس کو گھیرے میں لے سکتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خدشہ بس خدشہ ہوتا ہے لیکن بعض اوقات خدشے کو خطرہ بنتے دیر نہیں لگا کرتی۔
ہندوستان کی چین کے ساتھ مخاصمت تو سرحدی نوعیت کی ہے لیکن رقابت کی وجہ معاشی مسابقت ہے۔ جب ساحل گوادر سے لے کر تا بہ خاک کاشغر اقتصادی کاریڈور بن جائے گا تو اصل فائدہ اس ملک کو ہوگا جس کا کہ یہ منصوبہ ہے یعنی چین کو ۔ چین کے لیے توانائی کے وسائل اپنے ملک تک لانا اور تجارتی مال اپنے ملک سے وسط ایشیا کے ملکوں سمیت ایران، ترکی اور آگے یورپ پہنچانا سہل، سستا اور سریع ہو جائے گا۔ سمندری مسافت پینتالیس روز کی بنتی ہے۔ اس کے برعکس اگر حالات درست ہوں تو گوادر سے بیجنگ تک کا راستہ آٹھ سے دس روز میں طے ہو سکا کرے گا۔ ٹرانسپورٹ کا دورانیہ کم ہونے سے اٹھنے والی لاگت بھی ایک تہائی بلکہ بعض صورتوں میں ایک چوتھائی رہ جائے گی۔ یوں چین کو زیادہ منافع ہوگا۔ چین کے پاس پہلے ہی چالیس کھرب (چار ٹریلین) اضافی ڈالر ہیں، جنہیں وہ عملیت پسندی سے کام لیتے ہوئے دنیا بھر میں لگا رہا ہے۔ ہندوستان میں بھی سرمایہ کاری کی ہے اور ہندوستان کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم ایک کھرب ڈالر سالانہ تک کیے جانے کے منصوبے کا اظہار پچھلے دنوں ہو چکا ہے۔
پاکستان کو بھی معاشی اور بعد میں سیاسی مفادات ملیں گے لیکن ابھی معاملہ طے ہوا نہیں کہ اختلافات و اعتراضات شروع ہو گئے۔ معاشی ترقی و معاشی تعاون کے جن منصوبوں یا مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں، ان پر عمل درآمد کی راہ میں کئی دشواریاں ہیں۔ سب سے پہلا اور بڑا مسئلہ چینی کارکنوں کی حفاظت کا ہوگا، خاص طور پر بلوچستان کے علاقے میں۔ معاشی اور عسکری ہمہ دو حوالوں سے چین کے مخالف ملکوں یعنی ہندوستان اور امریکہ کی بہت زیادہ کوشش ہوگی کہ “برائی کو جڑ سے ختم کیا جائے”۔ اس کاریڈور کی تعمیر کو تخریب کا شکار کرنے کے لیےبلوچستان میں علیحدگی پسندوں، مذہبی دہشتگردوں اور قوم پرستوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کہنے کو فوج کی نگرانی میں کاریڈور کا یہ حصہ بخیر وخوبی تعمیر بھی کر لیا جائے تب بعد کے مستقبل میں ہر سو میٹر پر فوجیوں کا ایک دستہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی چین کے لیے تیل اور چین سے جانے والے مال سے بھرے ٹرکوں کے ساتھ حفاظتی قافلے چلائے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ شروع سے ہی یہ کہنا ضروری بنتا ہے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد اور ہر دو ملکوں کو فائدہ پہنچانے کی خواہش کی تکمیل کی خاطر پاکستان میں عموما” اور بلوچستان میں خصوصا” سیاسی استحکام لایا جانا ضروری ہے۔
دوسری رکاوٹ صوبوں میں اس منصوبے کے طفیل ملنے والے مفادات کی تقسیم کے ساتھ وابستہ ہے۔ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے سبب صوبوں کو خودکفالت کے حقوق دینے سے یہ تنازعہ زیادہ اہم ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ آج اٹھایا جانے والا یہ سوال کل باقاعدہ تنازعہ بن جائے جو ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کا موجب بن جائے۔ ابھی ریوڑیاں تیار بھی نہیں ہوئیں کہ بنٹنے بارے رنجشیں سر اٹھانے لگی ہیں۔ خاص طور پر اس ضمن میں پنجاب کو درست یا غلط طور پر نشانہ بنایا جانا ایک تشویشناک اشارہ ہے۔
پاکستان کو دہشت گردی کے علاوہ، انتہا پسندی چاہے وہ مذہبی نوعیت کی ہو یا قومیتی و قومی نوعیت کی سے بھی نمٹنا ہوگا۔ مخالف قوتوں کو موقع پرستی سے فائدہ اٹھانے سے بھی روکنا ہوگا۔ صوبوں کے سیاسی و معاشی اختلافات کو بھی دور کرنا ہوگا اور سیاسی رہنماؤں کی “پاپولسٹ” سرگرمی پر بھی نگاہ رکھنی ہوگی۔ ضروری نہیں کہ یہ سب کام پہلے کیے جائیں اور پھر پاک چین اقتصادی کاریڈور کی تعمیر شروع کی جائے بلکہ یہ سب کام اکٹھے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے کے لیے ایک قوم کا ہونا ضروری ہے جس کے زعماء اپنے مفاد سے پہلے ملک کا مفاد پیش نظر رکھتے ہوں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اچنبھا یا معجزہ رونما تو ضرور ہوا کرتا ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ ہم اتنے خوش بخت نہیں رہے۔
پاکستان چین نہیں جہاں ایک پارٹی کی سخت حکومت ہے۔ پاکستان میں سبھی اتنے بھلڑے بھی نہیں کہ ملک کو پھلتے پھولتے دیکھ کر خوش ہوں یا چپ رہ سکیں۔ سنکیانگ میں تو مسلمانوں کو داڑھی نہیں رکھنے دی جاتی۔ روزے رکھنے سے منع کیا جاتا ہے۔ مذہبی اعمال کے برملا اظہار پر قدغن ہے۔ اس لیے نہیں کہ چین کمیونسٹ ملک ہے، اب چین ترمیم پسند ملک ہے، سرمایہ داری میں پیش پیش ہے بلکہ اس لیے کہ ترکستان تحریک کے لوگوں نے علیحدگی پسندی کے ضمن میں چینی حکومت کو پریشان کیا ہوا ہے اور سخت پالیسیوں والے ملکوں میں تو ایسا ہوا کرتا ہے۔ ابھی تک تو ہمارے “جماعتیے” ٹائپ مہربان دوست چپ بیٹھے ہیں لیکن چینیوں کے پہلے دستوں کو پہنچنے دو، دیکھیں پھر چین کے ساتھ دوستی کی اسلام کے حوالے سے کیسی بھد اڑتی ہے۔ آخر اوئغور ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ “ہان” چینی تو ویسے ہی بدھ مت کے پیروکار ہیں، روسی تو پھر بھی اہل کتاب تھے اسی لیے جونہی روسی “الحاد” سے تائب ہوئے ہمارے وطن عزیز سے جماعت اسلامی کے کئی امیروں کے بیٹے پوتے اور کچھ کی تو بیٹیاں پوتیاں بھی پڑھنے کے لیے اس ملک میں پہنچ گئی تھیں۔ جن میں سے اکثر اب اپنے ملک میں ڈاکٹر ہیں۔ روس تو ٹھیک ہو گیا ابھی ہمیں چین کو ٹھیک کرنا باقی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply