احمد سلمان اور تربوز۔۔حسان عالمگیر عباسی

تنقید کس بات پہ ہو رہی ہے؟

تصویر بنوانے پہ؟
پہلی بات یہ ہے کہ تصویریں تب تک بنتی رہیں گی جب تک کیمرے کی آنکھ باقی ہے یا اس کا متبادل نہیں مل جاتا۔

غریب کا مذاق بنا؟
کیسے بنا مذاق؟ یہ تصویر سوشل میڈیا پہ اپنی سرگرمی سے آگاہی کے لیے بنائی گئی۔ یہ خیرات تھوڑی تھی؟ یہ باہمی سرگرمی تھی اور امیر غریب کی تقسیم سِرے سے تھی ہی نہیں۔ اس سے پہلے بھی ہو چکا۔ مہندی لگائی گئی بچیوں کو۔ کینو پارٹیاں رکھی گئیں۔ پائے ناشتہ تو غالباً ہر ہفتے ہوتا ہے۔ آگے قتلِ آم کا وقت بھی ہوا چاہتا ہے۔ دعوتِ آم سجے گی۔ خواتین کو کہا گیا کہ سوئی گیس نہیں ہے تو کوئی بات نہیں گھر میں چولہے تو موجود ہیں انھیں گلیوں میں ترتیب وار رکھ دیا جائے اور احتجاجی آواز بلند کی جائے تاکہ ستو پی کے سوئے ہوئے حکمران مسائل حل کرنے کی طرف بھی توجہ دے پائیں۔

خواتین باعزت روزگار کے نام سے سرگرم ہوئیں۔ پراؤڈ ویمن فیسٹیول ہوا۔ اجتماعی شادیاں ہوئیں۔ افطار پارٹیاں رکھی گئیں۔ سرگرمیوں کے حساب سے یہ حلقہ سب سے آگے جا رہا ہے اور داد بنتی ہے حلقے کے لیے! یہی وہ طریقہ ہے جو مثبت ہے۔ مذہب، وطن کارڈز اور بیانیے فراڈ ہے! فراڈیوں سے ہمیشہ بچ کے رہنا چاہیے۔

اچھا یہ تو بتایا جائے کہ احمد بلوچ صاحب کو کیوں کہا جا رہا  ہے،کہ وہ یوسی لیول کے ہیں اور اس لیول پہ یہی کام سجتے ہیں؟ خان صاحب نے کٹوں مرغیوں کی بات کی تھی۔ وہ کسی مزدور کو سالن دے رہے ہیں کی تصویر بھی ہے۔ ایک بحث ختم ہوتی ہے اگلی کی باری آ جاتی ہے۔ اصحاب مدح کرتے ہیں تو کچھ نقد لگاتے ہیں اور پہاڑ کھودنے کے بعد چوہی برآمد ہوتی ہے۔ تھوڑے کو کافی سمجھنا چاہیے۔ ایکسیپٹ کریں۔ خوامخواہ کی ایکسپیکٹیشن بے معنی اور بے سود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ تنقید کا جواز کہاں ہے یہاں؟ جماعت اسلامی تربوز پہ لکھا ہے سرکار کی دیوار تو گندی نہیں کی! جماعت اسلامی عوامی جماعت ہے۔ چلو یہ تو یوسی لیول ہے۔ ہیڈکوارٹر لیول بھی آپ کو ٹریکٹر، رکشے، اور گھوڑے پہ نظر آئے گا۔ کلیوں کے پاس کھانا کھاتے! پولیس اسٹیشن! اور سائیکل پہ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply