خودکشی مگر کیوں؟۔۔محمد جنید اسماعیل

میں اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی  جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ میں متعدد بار خودکُشی کی کوشش کرچکا اور ہر بار زندہ رہ کر جو اذیت محسوس کی ہے وہ اُس اذیت سے کم ہے جو خودکُشی کرنے اور بعد کی سزا سے ملتی ۔میں یہاں پر اپنے ذاتی تجربات کے ذریعے ہی خُودکشی کی وجوہات بیان کرنا چاہوں گا ۔

ہمارے ہاں خودکشی کی شرح میں اضافے کی وجہ حساسیت میں اضافہ نہیں بلکہ اُس حساسیت کو درست سمت میں ظاہر کرنے کے لیے مناسب پلیٹ فارم کا نہ ہونا ہے ۔سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں تقابل کی اس دوڑ نے ہم میں موجود ہر شخص کے اندر بے چینی کا عنصر شامل کردیا ہے ۔ہر شخص کے اندر موازنہ اور آگے بڑھنے کا جذبہ اپنے جوبن پر ہے اور جوانی ایسی عمر ہے جب آپ اپنے جذبات کی انتہا پر ہوتے ہیں ۔اس عمر میں آپ فوراً صلہ مانگتے ہیں اور راتوں رات ہی چیزوں کی دستیابی کی خواہش کرتے ہیں۔اگر ایسے میں چیزیں اور مقاصد کا حصول ممکن نہ ہو تو انسان ڈپریشن میں آسانی سے جاسکتا ہے ۔اس ڈپریشن میں انسان کو کندھے پر تھپکی مل جائے اور بتادیا جائے کہ سب اتنا جلدی ممکن نہیں تو انسان کو ڈھارس مل جاتی ہے ۔اس فیز سے گزرتے ہوئے اگر کوئی  آپ کو بتادے کہ ہر چیز ہر انسان کےلیے ممکن نہیں اور نہ ہی انسان کا مطمع نظر کسی اور کا تقابل ہے ۔انسان کے لیے بنیادی مقابلہ اُس کا اپنے ساتھ مشکل ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی حدود متعین کرلے تو وہ اُنہی حدود کے اندر آگے بڑھنے کو ترقی کرنا جانے گا اور مطمئن رہے گا ۔

اس کے برعکس اگر اس دوران آپ پر ہنسنے والے زیادہ ہوں اور آپ اپنوں سے فاصلے رکھے ہوئے ہوں تو آپ سب سے پہلے خود کو فضول اور بے کار سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور پھر اپنے گرد و نواح کو بھی بے کار قراردے کر اُس سے نفرت شروع کردیتے ہیں ،یہی نفرت آپ کی نظروں میں زندگی کی اہمیت گھٹانا شروع کردیتی ہے ۔آپ ہر چیز کے بارے میں تشکیک (Speculation) کا شکار ہوجاتے ہیں اور آپ کو ایسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے کوئ ایسا جہاں موجود ہوگا جہاں سارا کُچھ مل جائے گا لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

(شیخ ابراہیم ذوق )

آپ عدم توجہ کا شکار ہوتے ہوں یا نہ ہوتے ہوں ،اُسی تشکیکی نظر کی وجہ سے آپ ہر چیز میں منفی پہلو دیکھتے ہیں ،اور اگر اس دوران آپ پر مسلسل تنقید یا مصائب کا پہاڑ ٹوٹنے لگے تو آپ کے اُس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ سب آپ کے دشمن ہیں اور کوئی  آپ کا سہارا نہیں ،موت ہی آپ کی پناہ گاہ ثابت ہوسکتی ہے ۔حساس انسان اس صورتِ حال میں خود کو زیادہ اذیت میں مبتلا کرسکتا ہے ۔اُس کے مسائل زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں ۔وہ نوجوانی میں ہی دُنیا کا غم اپنے اندر پال کر اس پر ہلکان ہوا پھرتا ہے اور اس دوران بہت سے سوالات آپ کو پریشان کر رہے ہوتے ہیں ۔
سب سے خطرناک سوالات جو آپ کو مایوسی کے سمندر میں گھسیٹ لے جاتے ہیں

کیا میں کسی کے لیے اہم ہوں ؟
میں کیا کرنے آیا تھا اور کیا کر رہا ہوں ؟
دنیا میں یہ سب عدم توازن کیوں ہے ؟

کوئی بھی شخص ان سوالات کے گرداب سے نہیں نکل سکتا ،ان میں جتنا غوطہ لگائیں گے اُتنا ہی آپ ڈوبتے چلے جائیں گے۔
پھر ایک ایسی اسٹیج آئے گی جب آپ کے پاس وجود کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور آپ کسی اور جہاں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے ۔

ایک عام اُلجھن جس کی نفی کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ خودکُشی میں لڑکی کا نہ ملنا شامل نہیں ہوتا ،یہ عوامل ضرور شامل ہوتے ہیں کہ آپ عدم توجہ کا شکار ہوتے ہیں اور سہارا چاہتے ہیں لیکن وہ سہارا کسی بھی صنف سے مل سکتا ہے ۔آپ کو بس ایسا شخص چاہیے جو آپ کو آپ کی اہمیت یاد دلاسکے ،جو آپ کو ہر موقع پر یہ احساس دلادے کہ آپ کے وجود کی اہمیت اس دنیا کی ساری چیزوں سے بڑھ کر ہے تو آپ بھی اپنے وجود کی قدر کرنا شروع کردیں گے ۔

ایسے ہی آپ کے ذہن میں یہ ترکیب چل رہی ہوتی ہے کہ آپ خودکُشی کے ذریعے دنیا کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ آپ قیمتی ہیں تو آپ غلط ہیں ۔آپ یہ یقین کرلیں کہ یہاں کسی کو بھی فرق نہیں پڑے گا ،لوگ ٹھٹھے کریں گے اور آپ کے عزیز آپ کے بارے سو قسم کی  آراء قائم کرکے آپ کی روح کو بھی چھلنی کریں گے لیکن آپ کے والدین کے دل میں چھرا گھونپ کر جائیں گے آپ ہمیشہ کے لیے ۔صرف والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ آپ کے لیے کسی نے نہیں رونا اور نہ کسی نے یاد کرنا ہے ،والدین بھی چند عرصے بعد نارمل ہوجائیں گے ،اس دوران بھی نقصان آپ کی اپنی روح کا ہوگا جس کو آپ کی اپنی تھپکی کی ضرورت ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے اپنے تجربات سے یہ بات ثابت شُدہ ہے کہ آپ کے قریبی لوگ آپ پر ٹھٹھہ کریں گے ،مذاق اڑائیں گے اور آپ کی خُودکشی کو ڈرامہ قرار دے کر اپنی تفریح کا ساماں پیدا کریں گے جو آپ کے لیے مزید تکلیف دہ ہوسکتا ہے لیکن اس دوران آپ نے فقط ایک بات ذہن میں رکھنی ہے کہ آپ نے اپنی قدر یا اہمیت دکھانی ہے تو آپ کو جی کر دکھانا ہوگا ۔آپ کے جینے سے ہی آپ کی انقلاب یا تبدیلی آسکتی ہے ،آپ کے ہار جانے سے تباہی اور پچھتاوا ہوگا جو آپ خود کے لیے اور اپنے قریبی لوگوں کے لیے چھوڑ جائیں گے ۔آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ آپ Deep inside کس امتحان سے گزر رہے ہیں ،باقی سب یا قیاس آرائیاں کرسکتے ہیں یا پھر کفِ افسوس مَل سکتے ہیں آپ کے جانے کے بعد ۔۔

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply