حکومت اِدھر میٹنگ اُدھر ۔۔یوحنا جان

ہندوستان کی تاریخ, پس منظر اور خدوخال کا مطالعہ کریں تو یہ بات منظرِ عام پر آتی ہے کہ ایک گھرانے میں رہنے والے, ایک خاندان اور ایک کلچر کے اہل لوگ آخر میں سب کے سب دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہو گئے ۔دو قومی نظریے کی بنیاد پر یہ تقسیم ہونے والے لوگ اتنے مسائل کا حل نہیں نکال سکے جتنے مزید مسائل کو جنم دے چکے ہیں- وہ خاندان جو صدیوں سے ایک زبان اور لسان سے تعلق رکھتا تھا ٹکڑے ہو کر اک وقت جلتے, کٹتے , کیڑے مکوڑوں کی طرح موت کا شکار ہو گئے- یہ مذہبی سطح پر اٹھنے والے فرقہ وارانہ تعصب نے فسادات کا ایسا نفسیاتی مسائل کا بیڑا لا کھڑا کیا, جس نے انسانیت کو درندوں کے لاتعداد ہجوم میں لاکر شیطانی خواہشات کا نشانہ بناڈالا- اس شیطانی اور دو قومی نظریہ کی شاخیں آہستہ آہستہ ختم ہونے کی بجائے اپنی جڑیں مضبوط کرتی ہوئی 2021 تک آ چکی ہیں-  دلشاد نامی عورت مشرقی پنجاب کے گاؤں چمکور کی مسجد امام کی بیٹی تھی جو اس وقت تقسیم , فسادات اور فرقہ واریت کے طوفان کا نشانہ بنی- اس وقت کے لوگوں نے اس کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے انسانیت کو خاک میں ملا دیا- مسجد کے امام کو قتل کر کے کنویں میں پھینک دیا اور اس لڑکی کو حاملہ کر دیا- اس کے بعد متعدد فوجی افسروں کے ہاتھوں استعمال ہوکر اسپیشل ٹرین کے ذریعے پاکستان آئی-  اُس وقت سے لے کر آج تک بہت ساری دلشاد اس منظر کا حصہ بن رہی ہے- جو فسادات, فرقہ واریت کا نشانہ بن کر پاکستان پہنچیں- پاکستان آکر دلشاد پر حقیقی اثر واضح ہوا اس نو تشکیل شدہ اسلامی ریاست کے باشندے ہوس پرستی, درندگی, جنسی لذت اور بدعنوانی میں کسی سے کم نہیں ہیں- جو اپنے آپ کو مسلم مذہبی ارکان و احکامات کے پابند اور مومن بھی کہلاتے ہیں – اس دلشاد نے ریل ہی میں پرائے گناہوں کا ثمر ایک بچی کی صورت میں جنم دیا- قدرت اللہ کا ناولٹ” یا خدا” میں اس کا تذکرہ کچھ یوں ملتا ہےجب دلشاد پاکستان پہنچیں جہاں مہاجرین کی حقیقی مدد کم اور نمائش زیادہ  تھی تو سوال ہوا:
” اے عورت کیا تم مہاجر ہو, اس نے خشمگیں انداز سے پوچھا جیسے زمانہ سلف کا قاضی کسی زانیہ عورت سے خطاب کر رہا ہو ”
” جی نہیں میرا نام دلشاد ہے-”
” ارے ہوگا لا حول ولا ۔۔۔۔۔۔۔ ہم پوچھتے ہیں تم کہاں سے آئی ہو اور کہاں جاؤں گی اور یہاں پر تمہارا کیا کام ہے ؟”
” تم مہاجر ہو , ایک بزرگ نے فتویٰ دیا تم مہاجر , مہاجر خانے چلی جاؤ -”
جب وہ دلشاد کراچی مہاجرین کی پناہ میں پہنچی جہاں عیاش افسروں نے عورتوں کے دلالوں کا نشانہ مزید واضح کیا-آخرکار دلشاد اور اس جیسی کئی عورتیں اپنا اور دلشاد جیسی بچی کا پیٹ پالنے کے لیے ان کی آڑ میں جسم فروشی کا سہارا لے کر اعلیٰ طبقے کی خواہشات کا نشانہ بننے لگیں- اور مملکت اسلامیہ کے لیے ایسی نسل کو تیار کرنے لگی جو مستقبل میں اپنے جسم کی خوبصورتی کے ذریعے گارے اور اینٹوں کا کام سرانجام د یں-
آج کی نسل تقریباً اسی کے اثرات کا نمونہ اور نتیجہ پیش کرتی ہے- جو اعلیٰ اور عمدہ طبقوں کی خواہش, درندگی اور جسم کی آڑ میں آکر گناہ آلودہ نسل کو آگے بڑھانے کا فریضہ  انجام دے رہی ہیں-
قدرت کا قانون کہتا ہے کہ جب گناہ آلودہ زندگی کا آغاز ہو تو اس کا اثر اور ردعمل ملتا جلتا ہوتا ہے جو بیج بویا جائے گا وہی کاٹا بھی جائے گا- موجودہ حالات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ اس غرور, گناہ فساد, درندگی کا منظر ہے – اس کے تاثرات ہندوستان کی دلشاد اور اس جیسی عورتوں سے ملتے ہیں جو ان کے گناہوں, فساد , فرقہ واریت اور ہوس کا نشانہ ہیں- ہم دیکھتے ہیں پاکستان 1947 میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا- لیکن اس کے پیچھے دیکھا کہ وحشت, درندگی خونریزی, فسادات اور گناہ موجود ہیں- موجودہ حکومت کا عکس بھی دیکھیں  تو مجھے اسی نسل سے ملتا دکھائی دیتا ہے جو اس وقت اسلامی مملکت میں اعلیٰ طبقے کی ہوس کا نشانہ بن کر تیار کی گئی تھی- کیونکہ وہ جس گناہ کی پیداوار میں بڑے ہیں اسی کا نسل در نسل سرور ہوتا ہے- اس گناہ کا اثر و رسوخ کئی گنا آج کے حکومتی عناصر, لیڈروں سے ملتا ہے جو اسی کھیت کی پیداوار سے اپنا اثر رکھتے ہیں- قدرت کا قانون بھی اسی بات کی تصدیق کرتا ہے-
موجودہ حالات پر ایک نظر کہ تو یہ تاثرات کسی سے چھپے ہوئے نہ ہیں- ہاتھوں پر بے گناہ زینب کا خون , بے گناہوں کا لہو اس ہوس اور درندگی کا نشانہ بن کر عیاش  طبقہ کی عکاسی کرتی ہے- جو اپنے آپ کو لیڈر اور ریاست کے خیرخواہ سمجھتے ہیں, وہیں خانہ خدا ( کعبہ) میں بےعزت ہو کر واپس آئے ہیں- وہی لوگ حکومت یہاں پر اور میٹنگ وہاں لندن میں کرتے ہیں- جو تمام کے تمام عدالتی بھگوڑے اور ضمانت پر ہیں- نہ جانے کتنی دلشاد اور زینب جیسی عورتوں کی عزت کی دھجیاں اڑائی گئیں- اور اپنے آپ کو صادق اور امین قرار دیتے ہیں- ساتھ یہ عدالتیں جو 24 گھنٹے کام کرنے کی پابند اور دعوے دار ہیں خود ہی زبان دیتی ہیں اور خود ہی بد نام زمانہ ہوتی ہیں- ان سب کے تاثرات اسی کھیت اور نسل اور فصل سے ملتے ہیں, جو دلشاد اور اس جیسی عورتوں نے ان درندوں کی ہوس کا نشانہ بن کر آباد کی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply