یہ نظم میں نے اپنی موت کے بعد لکھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
سر پھرا ، پاگل تھا وہ اک شخص جس نے
دل کے بیت المال سے حاصل شدہ
الفاظ کے عمدہ، نمو پرور لہو سے
شاعری کی پرورش کی تھی ۔۔۔
اُسے انگلی پکڑ کر
نت نئے رستوں پہ چل سکنا سکھایا تھا
غلط آموز ہونے سے بچایا تھا ہمیشہ
سر پھرا وہ مولوی، منشی بھی گویا
اک عجوبہ تھا کہ جس نے
نظم کے پارینہ پہناوے میں
عقل و دانش و ادراک کے ٹانکے لگائے تھے
اسے بے ربط ہونے سے بچایا تھا۔۔۔
نئے موضوع دے کر پُر تصنع
یاوہ گوئی سے نکالا تھا ہمیشہ۔۔۔
اک نئی پوشاک دی تھی
پوچھتے ہیں لوگ اب
اس کے چلے جانے کے برسوں بعد
آ خر کون تھا وہ چرکٹا ، ’ٹکسال باہر‘ شخص
جو اپنے تشخص کی عمودیت میں
خود کو ترپ کا پتہ سمجھتا تھا ۔۔۔
جسے اس خود پسندی کے نتیجے میں
کہیں بین السطور اخفا میں رکھ کر
فی زمانہ لوگ اس کا نام تک لینے سے ڈرتے ہیں
کہیں پھر زندہ ہو کر اٹھ نہ بیٹھے
خوف کیا ہے نام لینے میں، بھلا دیکھیں تو آخر
کون تھا وہ
ستیہ پال آنند ہی تھا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں