• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شیریں ابو عاقلہ کا قتل، بے نقاب ہوتی اسرائیلی بربریت۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

شیریں ابو عاقلہ کا قتل، بے نقاب ہوتی اسرائیلی بربریت۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

شیریں ابو عاقلہ کوئی غیر معروف شخصیت نہیں ہیں، وہ الجزیرہ کی پہلی خاتون صحافی تھیں۔ دہائیوں سے الجزیرہ دیکھنے والے انہیں سکرین پر دیکھتے تھے اور ایک نسل ہے جو انہیں دیکھتے دیکھتے جوان ہوئی ہے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ فیلڈ رپورٹر کے طور پر ہمیشہ ٹینکوں اور گولیوں کے درمیان سے بھاری بھر کم لباس پہنے رپورٹنگ کرتی نظر آتی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافی بالخصوص خواتین صحافیوں میں وہ بہت مقبول تھیں، بہت سی خواتین صحافیوں نے ان کی جرات و بہادری کو رول ماڈل قرار دیتے ہوئے عملی میدان میں قدم رکھا۔ شیریں کی شہرت کافی زیادہ ہوچکی تھی، وہ چاہتی تو کسی مغربی ملک میں منتقل ہوسکتی تھی۔ یہ اس کی فرض سے محبت اور وطن سے عشق ہی تھا کہ وہ نیشنلٹی ہونے کے باجود فلسطین سے منتقل نہیں ہوئیں۔ تحریک آزازی وطن کی ہوتی ہے اور اس میں بغیر مذہب و صنف دیکھے ہر ایک کو قربانی دینا ہوتی ہے۔ شیریں ابو عاقلہ مسیحی تھیں، مگر ان کے جنازے میں ہزاروں مسلمان پورے جوش کے ساتھ شریک ہیں۔

یہ صیہونی آرمی کی پالیسی ہے کہ وہ فلسطین کے لیے آواز اٹھانے والوں کو نشانہ بناتی رہتی ہے، اس بار انہوں نے شیریں ابو عاقلہ کو گولی کا نشانہ بنا کر انتہائی خونخواری کا مظاہرہ کیا۔ بات فقط اس تک محدود رہتی تو دنیا کے مردہ ضمیر پر کوئی اثر نہ پڑتا، مگر جب شیریں ابو عاقلہ کا جنازہ اٹھا اور اسے چرچ کی طرف لے جایا جا رہا تھا، اس وقت قابض افواج نے اس کے جنازہ پر حملہ کر دیا۔ جنازہ اٹھانے والوں پر لاٹھیوں کی برسات کر دی اور دل ہلا دینے والی اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے جنازے کا تابوت زمین پر گرا اور پھر دوبارہ اٹھایا گیا۔ اس حد تک انسانیت سے گری ہوئی حرکات صرف صیہونی فورسز ہی کرتی ہیں۔ دنیا آج بڑی حیرت سے جنازے پر حملے کی ویڈیوز کو دیکھ رہی ہے، کیونکہ ان کے ذہنوں میں اسرائیلی جمہوریت اور روشن فکری کا بت گھڑا گیا ہے۔ اسرائیلی تو اکثر جنازوں پر حملے کرتے رہتے ہیں اور اسی طرح قبرستانوں کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔

یہ الجزیرہ کی لائیو نشریات کی وجہ سے پوری دنیا نے انہیں یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ ان کے پروڈیوسر علی صمودی جو خود اس حملے میں زخمی ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہمارا پیغام بڑا واضح ہے کہ ہم شیریں کی میراث کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ شیریں ابو عاقلہ زندگی بھر صیہونی مظالم کو بے نقاب کرتی رہیں اور جب وطن کے لیے جان دی تو بھی ان کا جنازہ غاصب قوتوں کو بے نقاب کر گیا۔ زوال کی طرف مائل گروہ سب سے پہلے اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوتے ہیں، اسرائیل کی یہ کارروائیاں یہودی مذہب کی تعلیمات کے مخالف ہیں۔ ادیان ابراہیمی میں میت کا احترام کیا جاتا ہے اور چاہے جس کی بھی ہو، اس کے ورثاء کی خواہش کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، آپ کھڑے ہوگئے، کسی نے کہا یارسول اللہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا کیا یہ انسان نہیں تھا۔؟

مرنے والوں کی توہین کرنے والے دراصل انسانی اقدار کو روندنے والے ہیں۔ اسرائیلی پالیسی یہ ہے کہ حریت پسندوں سے اتنا برا سلوک کیا جائے کہ وہ تنگ آکر آزادی اور خود مختاری کی بات چھوڑ دیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا، ہر ایسا واقعہ تحریک آزادی میں جان ڈال جاتا ہے۔ شیریں ابو عاقلہ کو کیتھولک طریقہ کے مطابق ان کے والدین کے پہلو میں دفن کر دیا گیا، وہ آرام سے اپنے مادر وطن کی آغوش میں غروب ہوگئیں، مگر اہل فلسطین کو آزادی حریت اور خود داری کا پیغام دے گئیں۔ آج شیریں ابو عاقلہ کے جنازے پر ہونے والی بربریت کو دیکھ کر دل اداس تھا کہ کسی دوست نے ایک ویڈیو بھیجی، جس میں کچھ صیہونی ایک فلسطینی سے جبری خالی کرائے گئے گھر پر قبضے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سامان لیے بھاگ رہے ہیں۔ کسی بھی گھر والوں کے لیے کتنا دردناک منظر ہوتا ہے کہ جہاں وہ زندگی کر رہے تھے، جہاں ان کے آباء و اجداد نے زندگی بسر کی تھی، اس جگہ پر قابض قوتیں گولی کے زور پر قبضہ کر لیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

فلسطین ان لوگوں کا ہے، جو اس میں آباد تھے، جو لوگ دنیا میں پرامن زندگی بسر کر رہے تھے اور اہل فلسطین کی زمینوں پر قبضہ کے لیے اکٹھے کیے گئے ہیں، انہیں جلد یا بدیر جانا ہی پڑے گا۔ فلسطین الہامی مذاہب کا مرکز ہے اور ایک دن وہ آئے گا، جب قابض نکل جائیں گے اور صرف اہل فلسطین رہ جائیں گے۔ شیریں ابو عاقلہ کے قتل سے جہاں اسرائیل کی بربریت واضح ہوئی ہے، وہاں دنیا کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اسرائیلی ریاست صرف مسلمانوں پر تشدد نہیں کرتی بلکہ اس سے مسیحی حتی وہ یہودی بھی محفوظ نہیں، جو صیہونیت کو نہیں مانتے۔ امریکی وزیر خارجہ نے خاموشی توڑ کر فقط یہ لکھا کہ یہ ویڈیو دیکھ کر سکتے میں ہیں، مگر اسرائیلی فوج کی مذمت میں ایک لفظ نہیں لکھا۔ یہ کیسا سکتہ طاری ہوا ہے، جو ظالم کے خلاف ایک لفظ بھی لکھنے پر وادار نہیں کرسکا؟ امریکی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے، آزادی پسند امریکی اسرائیل کی بے تحاشہ سپورٹ پر سوال اٹھاتے ہیں، جن کی وجہ سے ایسے بیانات دے دیئے جاتے ہیں، ورنہ ان مظالم کا اصل ذمہ دار امریکہ ہی ہے، اس کی سپورٹ کے بغیر اسرائیل ایسا نہیں کرسکتا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply