غیر صحت مندانہ طرز سیاست۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

انگریزوں نے تو کسی کی ذات پر “کیچڑ اچھالنے” کا ترجمہ Mud Slinging نہیں کیا ہوگا، یہ توفیق ہمیں ہی ہوئی ہوگی کہ ہم نے ان کی اصطلاح کو ترجمہ کرکے استعمال کرنا شروع کر دیا اگرچہ اس کے لیے بہت سے لفظ تھے جیسے “توہین کرنا” “تہمت لگانا” وغیرہ وغیرہ۔ مگر انگریزی کے لفظ Mud Slinging کا مزہ ہی اور ہے۔ پھر کیچڑ گوپیا میں گھما کر کسی کے صاف لباس اور دھلے ہوئے چہرے پر دے مارنا جس سے لباس اور چہرہ دونوں ہی لتھڑ جائیں، کو دیکھ کر تو سنجیدہ شخص بھی بجائے تاسّف کرنے کے ہنسنے لگے گا۔
اگر اصطلاح انگریزی کی ہے تو ظاہر ہے اس اصطلاح پر ان کے ہاں عمل بھی کیا جاتا ہوگا۔ مگر ٹھہریے! وہاں سیاستدان ایسا اب کم ہی کرتے ہیں البتہ شو بز میں ایسا چل جاتا ہے کیونکہ شو بز میں عزت اور تکریم کے معانی ذرا سہل ہوتے ہیں۔ رہا پاکستان اور اس جیسے دوسرے ممالک جہاں کی گلیوں کی نالیاں کیچڑ سے اپھنی ہوتی ہیں۔ مہتر ایک لمبے بانس کے آگے ٹاٹ کا ٹکڑا لگا کے کیچڑ کو دھکیلتا جاتا ہے اور پھر ایک جگہ پر اسے نکال کر نالی کے ساتھ اس کیچڑ کی ڈھیریاں بناتا جاتا ہے۔ یوں “چیک” نالی سے نکل کر مزید بدبو دار ہو جاتی ہے۔
ایسی گلیوں سے گذرتے ہوئے اگر گلی محلے کے کچھ بچے آپس میں لڑ رہے ہوں تو ان سے کنی کترا کر گذرنا چاہیے۔ ایسا اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے ایک “تیری تو ۔۔۔۔” کہتے ہوئے ڈھیری سے مٹھی بھر کے دوسرے پر دے مارتا ہے، دوسرا ظاہر ہے زیادہ قوی ہوتا ہے، وہ لتھڑے لتھڑے اس کی خوب دھنائی کرتا ہے۔ گلی کے بعض ہوشیار بچے تو ڈھیری نہ ہو تو نالی سے ہی مٹھی بھر دے مارتے ہیں۔
پاکستان میں جس طرح کاروباری یا سماجی مسابقت صحت مند نہیں ہوتی ویسے ہی سیاسی مسابقت بھی کچھ زیادہ ہی غیر صحت مند ہوتی جارہی ہے۔ پہلے ایک مومن بھائی فیصل عابدی کیا کم تھے جنہوں نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف کمر باندھی ہوئی تھی کہ دوسرے مومن بھائی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آ گئے ہیں۔ اس بار الطاف حسین کے ساتھ ساتھ اپنے سابق جگری دوست سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی بھی کھال نوچے جا رہے ہیں۔ ایسے ایسے الزام لگا رہے ہیں کہ دوستی کا نام بدنام ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔
دشنام طرازی اور الزام تراشی کمزور شخص کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی ذات اسی طرح پردے میں رہنی چاہیے جس طرح ذوالفقار مرزا کی ذات۔ یہ درست ہے کہ سیاست دان، اداکاروں کی مانند عوام کی ملک ہوتے ہیں لیکن وہ برائے فروخت نہیں ہوتے کہ ان کے ذاتی عیوب و نقائص کو نمایاں کیا جائے۔ پھر عیوب و نقائص مختلف معاشروں میں مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر فرانس کے صدر کے بارے میں یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایوان صدر میں دو دو گرل فرینڈز رکھی ہوئی ہیں تو یہ نہ تو توہین ہوگی اور نہ تہمت۔ اس کے برعکس اگر کہہ دیا جائے کہ وہ ایوان صدر میں نماز پڑھتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا سکینڈل بن جائے گا۔ صدر فرانس اسے تہمت قرار دیں گے اور ایسا کرنے والے کو اپنی توہین کرنے کا مرتکب گردانیں گے۔ اس کے برعکس پاکستان میں بات الٹ ہوگی۔ نماز پڑھنے پر قدر بڑھ جائے گی اور دوسری صورت میں لوگ تھو تھو کریں گے۔
لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ظاہر ہے اس لیے کہ کسی کی قدر کم کی جائے۔ کسی کی شہرت کو داغدار کیا جائے۔ کسی کے سیاسی کیریر کو شدید نقصان پہنچایا جائے۔ پتہ نہیں زرداری صاحب نے مرزا صاحب کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے کہ وہ ان کی توقیر کے دشمن ہو گئے ہیں۔ مگر آفریں ہے آصف زرداری کو کہ انہوں نے ان الزامات یا اگر حقائق بھی ہیں تو ان سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی پارٹی کے اندر مرزا صاحب کی بیگم اور بیٹے کو نشانہ بنایا ہے۔
اگر کوئی کسی سیاستدان یا منصف اعلٰی کے اس عمل کو نشانہ تنقید بنائے جس سے انصاف مجروح ہوتا ہو یا ملک کو نقصان پہنچتا ہو یا لوگ متاثّر ہوتے ہوں تو اس کو کسی کی توہین کیے جانے پر محمول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان الزامات کو ثابت کیا جانا چاہیے اور ایسے سیاست دان یا منصف اعلٰی کو اگر وہ ملزم سے مجرم بن جائے قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے۔ پر کسی کے ذاتی اعمال بارے اس شخصیت پر “کیچڑ اچھالنا” فی الوقع گلی کے گندے بچے کی طرح نالی سے مٹھی بھر کے کسی کو داغدار کرنے والی بات ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالا گیا وہ تو نہا لے گا، کپڑے بدل لے گا لیکن کیچڑ اچھالنے والا خود “گندہ شخص” کہلانے لگے گا.

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply