یادِ رفتگان ۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

عید کے تیسرے دن اطلاع ملی، چوہدری محمد یوسف دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اَسّی سالہ چوہدری صاحب میرے “کلاس فیلو” تھے۔ جی ہاں! میرے سینئر کلاس فیلو۔ بابا جی واصف علی واصفؒ کی محفلوں کے ساتھی تھے۔ اس حوالے سے میں اپنے ہم مکتبوں کو کلاس فیلو کہتا ہوں۔ پچھلے دنوں جہانگیر میر کہنے لگے، آپ گوجرانوالہ آئے، محفل کی، مجھے دعوت نہیں دی۔ میں نے کہا “احتراماً دعوت نہیں دی، آپ میرے کلاس فیلو ہیں، محفل شاگردوں کے درمیان تھی، اپنے کلاس فیلو کو شاگردوں کے ساتھ بٹھانا ادب و احترام کے منافی ہے”۔

اوائل ہی سے میرے دوستوں کی فہرست میں وہ لوگ شامل رہے جو میرے دادا اور والد کی عمر کے تھے۔ حسن محمد سوہلوی مرحوم، نذیر احمد اختر قصوری مرحوم، سید سرفراز علی رضوی مرحوم ۔اب میرے سارے دوست رفتہ رفتہ مرحوم ہوتے جا رہے ہیں۔ رضوی صاحب کا بیٹا ضیا علی‘ علی بھائی کے حوالے سے میرا دوست تھا، پھر اس کے والد دوست بن گئے، اور بیٹا پس منظر میں چلا گیا۔ انکل رضوی کے ساتھ گھنٹوں، پہروں اور بعض اوقات کئی کئی راتوں تک مختلف فلسفیانہ اور صوفیانہ موضوعات پر گفتگو رہتی۔ فکر کے اُفق پر نت نئے انکشافات رونما ہوتے۔ ان دنوں راقم اتفاق ہسپتال چلڈرن وارڈ میں میڈیکل آفیسر تھا، ہسپتال سے چھوٹتے ہی اُن کے گھر واقع ڈی بلاک ماڈل ٹاؤن چلا آتا، مجھے دیکھ کر ضیا علی پکارتا، او! اظہر انکل آگئے، اظہر انکل آگئے۔ میرے ٹھٹھکنے پر کہتا‘ جب آپ میرے والد کے دوست ہیں تو میرے انکل ہوئے۔ سید سرفراز علی رضوی انتہائی نفیس ذوق کے مالک تھے۔بنیادی طور پر ایک شاعر فلسفی تھے۔ فلسفی شاعر اور شاعر فلسفی کا فرق انہوں نے سمجھا یا تھا۔ دانشور اور دانشمند کا فرق بھی انہی سے سیکھا۔ روح ، جسم اور نفس کی مثلث کا نقشہ ان ہی سے سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ میرے استاد دوست تھے۔ اُفتادِ طبع دیکھیں کہ صرف غالب، خسرہ اور آئین سٹائین کو قابلِ توجہ سمجھتے تھے۔ رضوی صاحب کے بہت سے اشعار اب بھی مجھے اَزبر ہیں۔ بہت کم گو شاعر تھے، غالب کی طرح جو کہا کمال کہا:
دل کی دھڑکن نہ ہو گواہ جس کی
وہ گواہی معتبر نہیں ہوتی

اور اُن کا یہ شعر تو میں اکثر اپنے احباب کی محفل میں گنگناتا ہوں:
ساقی کی، میکدے کی ، مؤ ، جام و سُبو کی
باتیں تو بہت کی ہیں، اب پی کے بھی دیکھیں گے

اور ذرا ذوقِ پرواز دیکھیں:
الٰہی کھول دے فضائے ورائے” کُن” مجھ پر
زمین و آسماں مری پرواز کو کم ہیں بہت ہی کم

اس ہفتے بچھڑنے والے چوہدری محمد یوسف ایک درویش صفت اور سادہ دِل آدمی تھے۔ بہت جلد گھل مل جاتے۔ ہر کسی سے خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ ملنسار تھے، بنیادی انسانی اخلاقیات متصف۔ ایک زمانہ تھا کہ بہرِ ملاقات بلاتکلف گھر اور کلینک آجاتے۔ آخری عمر میں گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ جب کبھی ان سے کہتا کہ آپ کچھ لکھیں‘ قبلہ واصف صاحب کے حوالے سے اپنی یادداشتیں ہی تحریری صورت میں ترتیب دے دیں‘ وہ طرح دے جاتے‘ کہتے بس اب چل چلاؤ کا دور ہے‘ اب مجھے اللہ اللہ کرنی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اَوراد و وظائف کی طرف بہت زیادہ مائل ہو گئے تھے۔ اِن کے فرزندِ ارجمند اعجاز یوسف کہتےٗ ڈاکٹر صاحب ! چوہدری صاحب کی یادداشتیں محفوظ کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ آپ آجایا کریں اور ہم اِن کی آڈیو گفتگو ریکارڈ کرتے جائیں۔ بس میری غفلت اور مصروفیت مل جل کر آڑے آتی گئیں اور وقت گزر گیا۔گیا وقت ہو یا آدمی‘ ہاتھ آتا نہیں۔

مرحوم چوہدری صاحب بتایا کرتے کہ جب حضرت واصف علی واصفؒ کی ابتدائی محافل شروع ہوئیں، لکشمی چوک میں واقع ایک فلیٹ میں، تو انہیں لے کر جانا میری ڈیوٹی تھی۔ میں انہیں اپنی موٹر سائیکل پر لے کر جایا کرتا۔ جس پل پر ملنا طے ہوتا، جب پہنچتا تو پہلے سے آپ کو وہاں موجود پاتا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے انتظار کرنا پڑے۔ چوہدری صاحب کی زندگی سے میں نے یہ سبق سیکھا کہ مرشد کے ایک فقرے کو بھی اگر حرزِ جان بنا لیا جائے، اسے اپنی روح میں اتار لیا جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ مثلاً زندگی پر راضی رہنے کا فارمولہ عملی طور پر چوہدری صاحب کی زندگی میں نظر آیا۔ پریشان ہونے والی باتوں میں بھی پریشان نہ ہوتے۔ وردِ زباں یہی بات ہوتی ‘اس کام میں مالک کی طرف سے بہتری ہوگی، اسی میں میرے لیے بہتری ہو گی، میرے لیے یہی بہتر ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر اُن کی چائے کے کپ میں چینی ڈالنا بھول جائیں تو شکایت یا تقاضا کیے بغیر پی لیتے، کوئی تاسف کرتا تو کہتے کہ آج چینی نہیں ملی تو میں نے سمجھا کہ یہی میرے لیے بہتر ہوگا۔ جنرل ہسپتال میں اکاونٹس کے شعبے میں نوکری پر تھے۔ اپنی زندگی پر خوش تھے، گویا خوش نصیب تھے۔ میں نے انہیں کبھی کوئی تقاضا یا گلہ کرتے نہیں دیکھا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا یہ قول “زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دو، سکون مل جائے گا” حرف بہ حرف چوہدری صاحب کی زندگی پر پورا اُترتا نظر آیا۔ یوں سمجھیے کہ یہ قول گویا یوسف صاحب کی فکری اور عملی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ صبر و رضا کا عملی مظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیا‘ جب اُن کا جواں سال نوبیاہتا بیٹا اچانک داغِ مفارقت دے گیا۔اِس موقع پر انہیں صبر ورضا کا پیکر بنے دیکھا۔اِس غم نے بھی انہیں بے ربط نہیں کیا۔ تعزیت کرنے والوں کو ایک ہی جواب ملتا ‘اسی میں اللہ کی حکمت ہوگی، ہمارا کام اس کے فیصلوں پر راضی رہنا ہے۔ سبحان اللہ! یہ عملی باتیں ہیں، کتابیں پڑھنے سے نہیں ملتیں بلکہ کتاب والوں سے بالمشافہ مشرف بہ ملاقات ہونے سے میسر آتی ہیں، بس نصیب والوں کو حصہ ہے۔ اسے ہی فیض کہتے ہیں کہ کوئی خیال آپ کا حال بدل دے۔

ایک مرتبہ بتایا کہ ایک خوش گوار ماحول میں واصف صاحب اپنے آفس میں بیٹھے مجھے کہنے لگے، دیکھو یوسف میاں! ہم درویشوں کی باتیں کرتے کرتے درویش ہی ہو گئے ہیں۔ بظاہر عام دکھائی دینے والی یہ بات کتنی گہری ہے، کشف المحجوب کا طالبعلم اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ کشف المحجوب میں ایک جگہ یہ بات یوں درج ہے کہ جوہرِ انسانیت بیان کرتے کرتے انسان جوہرِ انسانیت کو اپنے اندر پا لیتا ہے۔

ایک دن کہنے لگے، میں نے واصف صاحب سے کہا، آپ کے نام کی ایک نیم پلیٹ باہر گیٹ پر لگوا دیتے ہیں، لوگ دُور دُور سے ملنے آتے ہیں‘ انہیں سہولت ہو جائے گی۔ آپؒ نے فرمایا‘ جس نیم پلیٹ نے ہمارے جانے کے بعد اُتر جانا ہے‘ اسے لگانے کا کیا فائدہ ۔ اب مزارِ اقدس پر آپؒ کے نام اور کلام کی ایسی تختیاں‘ سیرامکس ٹائل پر ایسی نیم پلیٹیں نصب ہیں کہ قیامت تک قائم رہیں گی۔ زندگی میں اپنی نفی کرنے والوں کو بعد اور مابعد میں کس قدر اثبات میسر آتا ہے— ایں مقامِ حیرت است!!

رمضان کے آخری عشرے میں ایک اور کلاس فیلو رخصت ہوگئے— نذیر احمد اختؔر قصوری۔ باٹا فیکٹری میں ملازم تھے، باٹا پور میں رہتے تھے۔ قادرالکلام شاعر‘ اختؔر تخلص کیا کرتے۔ آخری ایام میں ایک کتاب بھی شائع ہوئی، بعنوان “فکرِ رومیؒ اور اقبالؒ” کوئی چار ایک کتب زیرِ ترتیب ہیں۔ میں سب بچوں طارق، طاہر، لاریب، بشریٰ حزین اور سمیرا کو بقلم خود لکھ کر بتا رہا ہوں کہ اپنے والد کی زیرِ ترتیب کتابوں کو ضبطِ اشاعت میں لانا اب اِن کا اخلاقی اور روحانی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی تساہل یا مصلحت حائل نہ ہونے پائے۔ یہ کتب اُن کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ قصوری صاحب سے آخری ملاقات امسال 15 جنوری میں ہوئی، مرشد کے یوم ولادت کی تقریب میں مزار اقدس پر انہیں ایک عصا کا سہارا لیے سٹول پر بیٹھے دیکھا، عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی، قریب جا کر‘ جھک کر سلام دُعا کی، دُعا لی۔ نقاہت اور کمزوری جسم کے روئیں روئیں سے عیاں تھی۔ چہرے بشرے سے جہانِ فانی سے روانہ ہونے کے آثار ھویدا تھے۔ دل دھڑک رہا تھا کہ اگلے سال شائد ملاقات نہ ہو سکے۔

جنوری 1985ء میں جب اِس طالب علم کو مرشد کے حضور حاضری کا اذن ملا تو ایک مشکل درپیش ہوئی۔ جمعرات کی محفل بعد از نمازِ مغرب شروع ہوتی۔ ہمارے ہاں “بچے” کا موٹر سائیکل پر سورج ڈوبنے کے بعد گھر سے نکلنا غیر معمولی واقعہ سمجھا جاتا۔ جب یہ مشکل بابا حضور کے گوش گزار کی تو آپؒ نے اس کا حل نکالا۔ قصوری صاحب کی ڈیوٹی لگ گئی کہ اس بچے کو اپنے ساتھ لے کر آنا ہے۔ قصوری صاحب ان دنوں اپنے دوستوں بشمول ارشد صاحب کے ہمراہ باٹا پور سے گلشن راوی ہر جمعرات باقاعدگی سے شاملِ محفل ہوتے۔ ارشد صاحب کے پاس ایک منی ٹو ڈور کار تھی‘ غالباً مورس۔ عرفِ عام میں اسے “صابن دانی” کہا کرتے۔ بہرطور جب تک یہ بچہ تھوڑا سا “بڑا” نہیں ہوگیا‘ جمعرات کی محفل میں لانا اور لے جانا نذیر صاحب کے ذمے تھا۔ وہ جلّو باٹا پور سے نکلتے اور میں وقتِ مقررہ پر لال پل ریلوے لائینوں کے پاس کھڑا ہوتا، وہ پہلے سے مسافروں سے لدی ہوئی گاڑی میں مجھے ٹھونستے اور چل سو چل۔ راستے میں یہ دوست آپس میں بڑی پُرلطف باتیں کرتے‘ میں چپکا سُنتا رہتا۔ ایک مرتبہ محفل سے واپس آتے ہوئے نذیر صاحب نے ایک ایسی بات کہی جو مجھے ابھی تک یاد ہے۔ میں دیکھتا کہ محفل سے واپسی پر نذیر صاحب معمول سے زیادہ چہکنے لگتے۔ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے، بھئی! واصف صاحب کی محفل سے جب میں واپس آتا ہوں تو اتنا ہلکا پھلکا ہو جاتا ہوں، اتنا بے خوف ہو جاتا ہوں، اگر اسی وقت موت کا فرشتہ میرے پاس آئے کہ تجھے لے کر جانا ہے تو میں کہوں گا، جی بسم اللہ!! بات سنانے والے کا غیر معمولی مقام اپنی جگہ مسلّم، بات سننے والا بھی معمولی نہیں رہتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اپنے معتقدین و سامعین میں “لاخوف عیلیھم ولا ھم یحزنون” کی کیفیت بھی پیدا کر دیتے اور یہ کیفیت حاصل کرنے کا ایک گونہ ذوق بھی!! فکر و قلم سے وابستہ یہ شخصیت بڑی خوبصورت زندگی گزار کر رخصت ہوئی۔ بعد از ظہر سخت دوپہر نمازِ جنازہ تھا، سب لوگ روزے سے تھے، باٹا فیکٹری کے گراونڈ ہی میں جنازہ رکھا تھا۔ نماز کے بعد جب پیش امام نے نذیر صاحب کا نام لیا اور نام کے بعد بڑے اہتمام سے “رحمۃ اللہ علیہ” کہا‘ تو میرے دل میں کسی نے سرگوشی کی کہ یہ مسافر صاحبِ منزل تھا۔ فکر اور قلم کا زادِ راہ لے کر یہ مقبول منزلوں کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ نذیر صاحب کا بیٹا طاہر بتا رہا تھا کہ پچاس کی دہائی میں انہوں نے تحریکِ ختمِ نبوت میں تین مرتبہ جیل برداشت کی ہے۔ مئی جون کے روزے تھے۔غداری“ کے مقدمے درج تھے۔ جیل حکام کہتے کہ معافی نامہ لکھ دو، ابھی رہا کر دیتے ہیں، یہ کہتے کہ ناموسِ مصطفیٰ پر پہرہ دینے کی معافی کیسی؟ جیل ہی میں اس موقع پر ایک نظم کہی، جس میں ایک شعر یوں تھا:
اگر ناموسِ مصطفویؐ پر مر مٹنا ہے غداری
مبارک ہم کو غداری، محمدﷺ کی وفاداری

Advertisements
julia rana solicitors

غلامانِ محمدؐ کسی اور کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ اِس نام سے وفاداری نام کی بھی ہو تو نامور کر دیتی ہے— باعثِ صد افتخار ہے، دونوں جہانوں میں عز وشرف ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply