دُنیا ٹیڑھی ہے یا ہم؟۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سچ تو یہ ہے کہ دنیا کہیں بھی سیدھی نہیں ہے لیکن اتنی بھی کج نہیں ہوتی کہ اسے کج کہا جا سکے۔ پیچ و خم ہونا، اتار چڑھاؤ ہونا، ارتفاع و گہرائی ہونا دنیا کے تنوع کو ظاہر کرتا ہے، اس کے ٹیڑھے پن کو نہیں۔ کہیں اس کو عقل و فہم سے سیدھا رکھا جاتا ہے جیسے متمدن ملکوں میں، کہیں زور زبردستی کے بل پر جیسے عرب بادشاہتوں میں مگر دنیا کے کچھ ملک ایسے بھی ہیں بشمول عرب اور دیگر ایسے ملکوں کے جہاں کے لوگوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، وہاں کجی اور کجروی نہ صرف یہ کہ ایک عموم بن چکی ہے بلکہ اس کجی کو “سیدھ” ثابت کرنے کی خاطر جہاں ایک طرف عام لوگ، جو بیچارے اپنی آراّ کی بنیاد کژدم میڈیا کو بناتے ہیں جس کی دم ہی کج نہیں بلکہ اس کے ڈنک میں دم نکال دینے والا دردناک زہر بھی بھرا ہوتا ہے، تو دوسری طرف اسی میڈیا میں اخبارات اورسکرینوں پر لفظوں اور زبانوں سے ظاہر ہونے والے وہ لوگ بھی جنہیں اگرچہ دانشور کہتے ہوئے منہ ٹیڑھا ہوتا پے جبکہ ان پر “دانشوری” کا لیبل ان کی دانش سے کہیں زیادہ جگ مگ دکھایا جاتا ہے، سرکار کی زبان استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو پہلے سے موجود اسی گڑھے میں رکھنا چاہتے ہیں جس کے کناروں کو غیر ہموار کرنے کے لیے بہت سے عاقل عقل کے ناخن کمزور کر رہے ہوتے ہیں، تاکہ اس سے باہر نکلا جا سکے۔
ظاہر ہے کہ رونا رونے سے تو کجی یا کجروی جانے سے رہی البتہ کجی کو برقرار رکھنے والا مسالہ کہاں سے فراہم ہوتا ہے اور کجروی پہ مائل رہنے کی جانب کیونکر راغب کیا جاتا ہے، اس کی نشاندہی کیا جانا ضروری ہے تاکہ مزید لوگوں کی عقل صیقل ہو، چاہے دانشوری انہیں چھو کر بھی نہ گذرے۔ جہل وہ پہلا مسالہ ہے جو سیمنٹ کے مترادف ہے جس کے بغیر ریت اور پانی کی آمیزش میں سختی اور مضبوطی پیدا نہیں ہو سکتی۔ جہل کا مطلب تعلیم سے بے بہرہ یا معاملات سے لاعلم ہونا ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص نہج سے تعلیم پانے والے بھی انتہائی جاہل ہو سکتے ہیں۔ تعلیم میں جہل کی غلاظت شامل کیے جانے میں نصاب کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ اگر حصول علم کے آغاز میں ہی سوچ محدود کرنا شروع کر دی جائے تو بعد کی تعمیر لامحالہ کج ہوگی اور بچے کوئی پیسا کا مینار نہیں ہوتے کہ بڑے ہو کر ان کی کجی باعث تحیر بن سکے بلکہ اس کجی سے ممکن ہے کہ ان کی اگلی نسل بھی متاثر ہو۔
کجی کا دوسرا عامل جو یوں سمجھیں کہ سیمنٹ میں شامل کی جانے والی ریت کی مانند ہے، وہ ملک میں جاری نطام ہوتا ہے۔ نظام جمہوری بھی ہو سکتا ہے اور غیر جمہوری بھی لیکن نسلوں کی کجی کے مسالے میں ریت کا سا کردار لامحالہ غیر جمہوری نظام ہی کرتا ہے۔ غیر جمہوری نظام چاہے بادشاہت ہو یا مارشل لاء، اپنے نام لیواؤں کو ہی نوازتا ہے اور یہی لوگ جہل کی سیمنٹ میں ملائی جانے والی ریت کا کام دیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر یہ لوگ عارضی جمہوری نظام کا حصہ بھی بن جایا کرتے ہیں تاکہ مراعات ہاتھ سے جانے نہ پائیں اور اپنے سرپرستوں کے پھر سے برسر اقتدار آ جانے پر وہ اپنے “ساتھیوں” کے خلاف سلطانی گواہ بھی بن سکیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک مرکزہ ہوتا ہے، جن کے گرد ہر قبیل کے اور ہر پیشے سے وابستہ چھوٹے لوگ جڑے ہوتے ہیں، جن کے لیے یہ اشخاص اتالیق اور مربی کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ گاہے بگاہے ان کے گرد جمع لوگ ان سے لاتعلقی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سب اس جاری کھیل کا حصہ ہوتا ہے، جس میں ان کی بڑی باری کسی وقت بھی آ سکتی ہے اور یہ پھر سے جڑتے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔
کجی کے مسالے کو باہم کرنے والا پانی اپنے اپنے وقتوں میں دی گئی مراعات اور اس طرح کمائی گئی دولت اور شہرت کے بل بوتے پہ بنائے گئے تعلقات ہوتے ہیں۔ یہ تعلقات عسکری حلقوں کے علاوہ افسرشاہی اور کاروباری حلقوں سے لے کر مجرمانہ گروہوں تک کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ جو انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ Gun plus gold is equal to God والی بات ہوتی ہے۔ بزنس ٹائیکون ہوں یا عسکری اعلٰی عہدیدار کہیں بھی عقل و فہم درکار نہیں ہوتی بس چالاکی و موقع پرستی ہی آپ کے بگڑے کام بناتی رہتی ہے۔ وہ تو بھلا ہو پہلے یونان کا اور بعد میں برطانیہ کا جنہوں نے جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اور پھر اسے پروان چڑھایا جس کے سبب فی الواقعی عقل مند لوگ بھی امور حکومت چلانے میں سامنے آنے لگے وگرنہ صدیوں سے بادشاہوں اور سورماؤن نے عام انسانوں کو زیر کیا ہوا تھا۔ کجی سیدھ تھی اور سیدھ کجی۔
گذشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے میں پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پہ جو دیکھنے سننے کو اور پرنٹ میڈیا میں جو پڑھنے کو ملا اس نے کم ازکم میرے ذہن میں اب کوئی شک نہیں رہنے دیا کہ ہم نے ٹیڑھے پن کو قائم رکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اور ہم سیدھا ہونے کو گناہ سے کم نہیں سمجھتے۔
خفیہ ایجنسی کو اور وہ بھی ایک خاص ایجنسی کو جو چونکہ افواج پاکستان کا حصہ ہے، ہم نے ایسے سمجھ لیا ہے کہ اس پر اگر تنقید ہوئی یا اس کے نقائص کو آشکار کیا گیا تو پاکستان کی عمارت زمیں بوس ہو جائے گی۔ ایک سابق جرنیل نے تو یہ تک کہا اگر آپ اس ایجنسی پہ تنقید کرتے ہیں تو پاکستان کہاں جاتا ہے۔ لاحول ولا، بھئی حضرت پاکستان وہیں رہتا ہے، لوگوں کے دلوں میں۔ تنقید تو اس ادارے پہ کی جاتی ہے جو کچھ ایسی حرکتیں کرتا ہے جو تنقید کا موجب بنیں۔ اصغر خاں کیس کا فیصلہ یاد نہیں، اسامہ بن لادن کا غیر ملکیوں کے ہاتھوں مارا جانا یاد نہیں، سینکڑوں غیر ملکیوں نے وزیرستان میں غیر قانونی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور پھر گھر کے اندر گھس کر کہرام بھی بپا کرتے ہیں، یہ سب کیا دھرا میرا ہے کیا؟ یا ان کا جن پر تنقید کی جانی چاہیے، ہاں البتہ چونکہ آپ نے عمارت کج رکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اس لیے کر دیجیے زبانیں گنگ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply