بدن (13) ۔ وائرس/وہاراامباکر

نوبل انعام یافتہ سائنسدان پیٹر میڈاور کے مشہور الفاظ میں، “وائرس پروٹین میں لپٹی ہوئی بری خبر ہے”۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر وائرس بری خبر نہیں۔ یا کم از کم انسانوں کے لئے نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

وائرس عجیب ہیں۔ مکمل طور پر زندہ بھی نہیں اور مردہ تو بالکل نہیں۔ زندہ خلیات کے باہر ہوں تو یہ کچھ نہیں کرتے۔ نہ کھاتے ہیں، نہ سانس لیتے ہیں اور نہ ہی کچھ اور کرتے ہیں۔ ان کے پاس حرکت کرنے کا طریقہ نہیں۔ یہ دوسروں پر ہی سواری کرتے ہیں۔ زیادہ تر یہ اتنی ہی بے جان ہیں جتنا مٹی کا ذرہ لیکن اگر اپنی پسند کے زندہ خلیے میں ڈالیں تو یہ اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور پھر کسی بھی زندہ شے کی طرح اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔
بیکٹیریا کی طرح ہی وائرس انتہائی کامیاب ہیں۔ ہرپیس کا وائرس دسیوں کروڑ سال سے ہے اور ہر قسم کے جانور کو انفیکٹ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ سیپ (oyster) کو بھی۔ یہ بہت ہی چھوٹے ہیں۔ بیکٹیریا سے بہت چھوٹے اور عام مائیکروسکوپ سے نظر نہیں آتے۔ اگر ان کو بڑا کر کے ٹینس کی ایک گیند جتنا کر دیا جائے تو مقابلے میں انسان کو بڑا کر کے پانچ سو میل قد کرنا پڑے گا۔
وائرس کا لفظ 1900 میں آیا جب تمباکو کے پودوں کی پرسرار انفیکشن کا کھوج لگاتے وقت بائیرنک نے انہیں دریافت کیا۔ اگرچہ وہ وائرلوجی کے بانی ہیں لیکن اپنے وقت میں اس دریافت کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی تھی۔
ایک وقت میں خیال تھا کہ تمام وائرس بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اب ہمیں معلوم ہے کہ ایسا نہیں۔ اور زیادہ تر وائرس بیکٹیریا کو انفیکٹ کرتے ہیں۔ لاکھوں میں سے صرف 586 ایسی انواع ہیں جو ممالیہ کو انفیکٹ کرتی ہیں اور ان میں سے صرف 263 انسان کو۔
بیماری نہ پھیلانے والے وائرس کے بارے میں ہمارا علم بہت ہی کم ہے کیونکہ ہماری توجہ اور تحقیق ان کی طرف کم ہوتی ہے۔ 1986 میں محقق لیٹا پروکٹر نے سمندر پانی میں وائرس دیکھنے کا ارادہ کیا جو کہ عجیب کام تھا۔ خیال تھا کہ سمندر میں زیادہ سے زیادہ صرف وہی وائرس ہوں گے جو سیوریج سے گئے ہوں۔ لیکن حیران کن طور پر انہیں معلوم ہوا کہ ایک لٹر سمندری پانی میں ایک کھرب وائرس ہو سکتے ہیں۔ ڈانا ولنر نے صحتمند انسانی پھیپھڑے کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ ایک عام شخص میں 174 انواع کے وائرس ہیں جن میں سے نوے فیصد نئی دریافت تھے۔ زمین وائرس سے اتنی بھری پڑی ہے جس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور کام جو وائرس بہت اچھا کرتے ہیں، وہ وقت لینا ہے۔ 2014 میں فرنچ ٹیم نے سائبریا میں pithwvirus sibericum دریافت کیا۔ یہ ایسی جگہ پر تھا جو تیس ہزار سال سے مستقل برف میں تھی۔ جب اتنا پرانا وائرس نکال کر امیبا میں ڈالا گیا تو یہ فوراً ویسے ہی متحرک ہو گیا جیسے ابھی جوان ہو۔ خوش قسمتی سے، یہ والا وائرس تو انسانوں کو متاثر نہیں کرتا لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ کیا مزید چھپا ہوا ہے۔
وائرس کے صبر کی ایک عام مثال ویریسیلا زوسٹر (varicellazoster) وائرس ہے۔ یہ ہمیں بچپن میں چکن پوکس دیتا ہے اور پھر یہ اعصابی خلیات میں نصف صدی تک بالکل خاموش بیٹھا رہ سکتا ہے اور زیادہ عمر میں تکلیف دہ بیماری shingles کا باعث بن سکتا ہے۔
وائرس کا ایک اور بہت عام اثر زکام ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سردی لگے تو زکام ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ (اسی لئے اس بیماری کو انگریزی میں cold کہا جاتا ہے)۔ لیکن ابھی تک سائنسی لحاظ سے یہ ٹھیک معلوم نہیں کیا جا سکا کہ ایسا کیوں ہے۔ اور یہ کہ کیا ایسا ہے بھی یا نہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ زکام سردیوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا اس کا تعلق وائرس اور درجہ حرارت سے ہے، انسانی جسم اور درجہ حرارت سے یا سردیوں کے لائف سٹائل سے۔
زکام کئی قسم کے وائرس سے ہوتا ہے لیکن سب سے عام رائنووائرس سے ہے اور یہ خود سو کے قریب ورائٹی کا ہے۔ چونکہ زکام ہونے کی اتنی زیادہ وجوہات ہیں، اس لئے ہم اس کے خلاف امیونیٹی کبھی نہیں بنا پاتے۔
برطانیہ میں زکام کے علاج کی تحقیق پر کامن کولڈ یونٹ بہت عرصہ کام کرتا رہا لیکن 1989 میں اسے ناکامی کے بعد بند کر دیا گیا۔ تاہم، اس نے کئی دلچسپ تجربات کئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر زکام والا شخص ایک پارٹی میں جائے اور لوگوں سے گھل مل جائے تو جلد ہی اس کے جراثیم ہر جگہ پر ہوں گے۔ تمام شرکا کے ہاتھوں، سر، جسم پر۔ گلاسوں میں، دروازے کے ہینڈل پر۔ صوفے کی گدی پر۔۔ اوسطاً ایک شخص ایک گھنٹے میں سولہ مرتبہ اپنے چہرے کو چھوتا ہے اور ساتھ ہی وائرس کو خود میں لے جا سکتا ہے۔
ایریزونا یونیورسٹی کی ایک ایسی سٹڈی میں معلوم ہوا کہ آفس بلڈنگ کے دروازے پر لگے وائرس کو پوری بلڈنگ میں پھیلنے میں چار گھنٹے لگے اور یہ فوٹو کاپی مشین سے کافی مشین تک ہر جگہ پہنچ چکا تھا۔ نصف لوگ اس سے انفیکشن کا شکار ہوئے۔
اصل دنیا میں تین روز تک ایسی infestation برقرار رہتی ہے۔ اور زکام پھیلانے میں سب سے موثر چھینکنا یا کھانسنا نہیں بلکہ دوسرے شخص کو چھونا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply