دو بھائیوں کی ملاقات۔۔نجم ولی خان

ہمارے کچھ دوست برہم ہیں کہ وزیراعظم سمیت کابینہ کے اہم ارکان کو ہی لندن طلب کر لیا گیا ہے گویا اب پاکستان کا دارالحکومت ہی اسلام آباد سے لندن منتقل ہو گیا ہے، کچھ غصے اور تعصب میں بھرے ہوئے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ایک سزا یافتہ شخص نے پوری حکومت کو طلب کر کے آئین، قانون اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ مارا ہے اور میں ان کی طرف دیکھ کر سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ لوگ ابھی مریخ سے براہ راست زمین پر نازل ہوئے ہیں اور انہیں علم نہیں کہ گذشتہ چار سے پانچ سال یہاں نیا پاکستان بنانے کے نام پر کیا کھیل ہوتا رہا ہے۔

انہیں غالبا شریف فیملی کی سیاسی جدوجہد کا بھی علم نہیں اوروہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ملکی تاریخ میں کسی مارشل لا کو شکست دے کرتیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والا واحد شخص نواز شریف ہی ہے۔ ان کے سیاسی فیصلوں پر اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے اور تنقید بھی، جو میں کرتا رہتا ہوں، مگر میں اپنی سیاسی تاریخ کو نہیں جھٹلا سکتا۔

یہ کسی سیاسی رہنما کی محض کسی دوسرے سیاسی رہنما سے ملاقات نہیں تھی بلکہ آپ یہ سمجھئے کہ تھوڑی سی عمر کے فرق کے ساتھ فرمانبردار بیٹا اپنے مشفق باپ سے مل رہا تھا۔ نواز شریف سے ملنے جانا ان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض بھی تھا۔

میں نے اپنی صحافتی زندگی لاہور میں گزاری، رپورٹنگ کے بڑے عرصے میں بیٹ بھی نواز لیگ ہی رہی لہذا میں نے شریف فیملی کو بہت قریب سے دیکھا اورجانا سو جب یہ باتیں کی جاتی تھیں اور کی جاتی ہیں کہ نون میں سے شین نکلے گی تو یقین کریں میرا ہاسا نکل جاتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کاالمیہ ہے کہ بہت امیر اور بہت غریب خاندانوں میں معاشرتی اور خاندانی روایات عنقا ہوتی جا رہی ہیں مگرمیں نے شریف فیملی کو میاں محمد شریف کے دور سے ہی جس فیملی بانڈ، میں بندھے ہوئے دیکھا اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔

میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تب بھی اپنے والد کا اس حد تک احترام کرتے تھے کہ ہر جمعے کو بھاگے بھاگے لاہور چلے آتے تھے۔ جمعے کی صبح ماڈل ٹاو ن میں کارکنوں کی کھلی کچہری لگتی تھی مگر بارہ بجنے سے پہلے ہی نواز شریف اپنی گھڑی دیکھنا شروع کر دیتے تھے کہ انہوں نے جاتی امرا اپنے والد کے پاس کھانے کی میز پر پہنچنا ہوتا تھا اور یہ ایسے جاتے تھے جیسے بندوق سے نکلی گولی جاتی ہے۔ ان دنوں ہمارے لئے جاتی امرا لاہور سے باہر ہوا کرتا تھا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ جب آج سے چودہ، پندرہ برس پہلے شریف برادران اپنی جلاوطنی ختم کر کے واپس لوٹے تو پہلے داتا دربار گئے اور وہاں سے رات گئے ماڈل ٹاون گھر پہنچے۔

رات ایک، دو بجے کا وقت ہو گا جب دونوں بھائی آپس میں بیٹھے کھسر پھسر کر رہے تھے تو ہم صحافیوں کی متجسس نگاہوں کے جواب میں میاں نواز شریف نے وضاحت کی کہ ان کے والد سو چکے ہیں او راب ہم دونوں میں سے کوئی نہیں انہیں جگا سکتا، والدہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ طویل عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی، اگر وہ انہیں اٹھا دیں، مگر یہ جرات کسی میں نہ تھی۔

اپنے بزرگوں کا ایسا احترام آج شائد ہی کسی فیملی میں ہو۔ یہ نواز شریف اور شہباز شریف ہی تھے جو درجنوں خادم ہونے کے باوجود اپنی والدہ کی وہیل چئیر خود ہی چلاتے تھے چاہے وہ خانہ کعبہ جیسی پبلک پلیس پر ہی کیوں نہ ہوں اور یہ ان ہی کے حکم کا نتیجہ ہوتا تھا کہ اپنے والد کے مقرر کئے ہوئے امام مسجد (طاہر القادری) کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر غار حرا میں لے جاتے تھے۔

نواز شریف اور شہباز شریف کا تعلق بھی عجیب ہے۔ کہتے ہیں کہ جب کمانے لگتے ہیں تو بھائی ہی بھائیوں کے شریکے بن جاتے ہیں۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کے کہوں گا کہ ان کی فیملیز میں شائد روایتی جراثیم موجود ہوں، ہاں، میں نے ذاتی طور متعدد بار باتیں سنی بھی ہیں مگر شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کی عزت ایسے کرتے ہیں جیسے اپنے والد کی کرتے ہوں۔

یہ بھی ایک سے زائد مرتبہ ہوا کہ سینئر صحافیوں کی مجلس تھی اور شہباز شریف نے ایسی کوئی رائے پیش کر دی جو نواز شریف کوغیر منطقی لگی تو انہوں نے سب کے سامنے ایسے ڈانٹا جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو ڈانٹتا ہے مگر مجال ہے شہباز شریف کا ری ایکشن آج کل کے بیٹوں جیسا بھی ہو، میں نے انہیں جواب میں منمناتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔

مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ ان سے بہت فاصلے پر چلے جانے والے چوہدری برادران میں بھی ایسی ہی روایات ہیں، ہاں، اب دونوں خاندانوں میں تیسری نسل کے آنے کے بعد کچھ فرق ضرور آ رہا ہے مگر جب تک بڑے موجود ہیں میرے خیال میں یہ فرق نہ دلوں میں جڑ پکڑ سکتا ہے او رنہ ہی پھل، پھول لا سکتا ہے۔

آپ مریم نواز اور حمزہ شہباز کو ہی دیکھ لیجئے، دونوں کے خیالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ان کی میڈیا اور پارٹی کی ٹیمیں بھی فرق ہیں مگر اس کے باوجود کیا آپ نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوتے ہوئے دیکھا، میں نے تو نہیں دیکھا بلکہ میں نے تو دیکھا کہ یہ جب بھی آپس میں ملے ایسے ہی ملے جیسے دو سگے بہن بھائی طویل عرصے کے بعد مل رہے ہوں۔

دوسری طرف، اگر بہت زیادہ منطقی بلکہ کسی حد تک بے لحاظ ہو کر بھی تجزیہ کریں تو نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ آپس میں اختلاف نہیں کریں گے۔ یہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔ ووٹ بنک نواز شریف کے پاس ہے مگر مجھے کہنے دیجئے کہ پاکستان میں اقتدار کے حصول کے لئے ووٹ بنک واحد شرط نہیں ہے۔ یہ ایک الگ اورلمبی بحث ہے جس پر میں کئی مرتبہ بات کر چکا ہوں۔ سو نواز شریف کی طاقت شہباز شریف بھی ہیں اوربہت بڑی طاقت ہیں۔ جب دوسری طاقتیں فیل ہوجاتی ہیں تو پھر شہباز شریف کی طاقت چلتی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس وقت کا منظرنامہ بھی شہباز شریف کی طاقت کا ہی مظہر ہے اور شہباز شریف نے بجا طور پر کہا ہے کہ لوگ انہیں بہترین ایڈمنسٹریٹر تو مانتے ہی ہیں اور اب ان کی سیاست کی طاقت بھی دیکھ لی ہے۔ یہ شہباز شریف ہی کی آصف زرداری کے ساتھ مل کر حکمت عملی تھی جس نے آج عمران خان جیسے مخالف کو ایوان وزیراعظم سے اس شدید گرمی میں سڑک، سڑک خوار ہونے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔

آپ اس تصویر کو دوبارہ اور سہ بارہ دیکھئے، آپ کو اس میں آپ کو نواز شریف کی چھوٹے بھائی کے لئے محبت اور شہباز شریف کی بڑے بھائی کے لئے عقیدت نظر آئے گی۔ یہ کسی مجرم یا محض سیاسی رہنما سے نہیں، یہ بھائی کی بھائی سے ملاقات تھی اوراس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے وہ رہنما تھے جو نواز شریف سے اب ایک ایسا تعلق رکھتے ہیں جو محض سیاست سے آگے محبت اور عقیدت کا تعلق بن چکا ہے۔ وہ نواز شریف کی جدوجہد کو سراہتے ہیں اور انہیں جدید پاکستان کا حقیقی بانی سمجھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تصویر سے ایک مرتبہ پھر بہت سارے دلوں پر سانپ لوٹ گئے ہیں۔ یہ تصویر بتا رہی ہے کہ عمران خان کی نااہلی سے تباہ ہوتے ہوئے پاکستان کو بچانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو بھی شریف فیملی کو جہاں ہے اور جیسے ہے کہ بنیاد پر ہی قبول کرنا پڑا ہے ورنہ شہباز شریف کواس سے پہلے کم از کم تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کی پیش کش ہو چکی ہے اورمیرا یقین ہے کہ اپنے والدین کی تربیت کے باعث شہباز شریف تین مرتبہ تو کیا تین سو مرتبہ اس عہدے کو اپنے بھائی پر سے وار کر پھینک سکتا ہے۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply