حافظ فضل محمد بڑیچ، افکار اور شخصیت۔۔محمد اکمل جمال

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں مذہب کے بعد زیادہ جذباتیت سیاست میں پائی جاتی ہے، یہاں کا ہر دوسرا فرد اپنے پیشے سے زیادہ سیاست سے دلچسپی رکھتا ہے، اور اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ عوام الناس تو درکنار خالص تعلیمی ادارے بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔
میری شعوری زندگی کے ابتدائی چار سال کوئٹہ میں گزرے، جہاں کے عمومی سیاسی ماحول کے ہوتے ہوئے میرا یہ تعلیمی دورانیہ ایک ایسے گمنام مدرسے میں انجام پایا، جس کے ارباب اختیار اپنے طلبہ کو اس ماحول سے دور رکھنے کا اہتمام بہر حال کرتے تھے، اس کا یہ فائدہ ہوا کہ سیاست سے کم ازکم اتنی دلچسپی کبھی نہیں رہی، جس سے تعلیمی سلسلہ متاثر ہو، تاہم عمومی فضا اور کچھ نجی اجتماعات میں شرکت نے طبعیت پر کچھ خاص آثار بھی چھوڑے، اس لیے اس وقت سیاسی سے زیادہ علمی حوالے سے جن حضرات سے زیادہ متاثر رہا، ان میں مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ کے بعد سابق سنیٹر حافظ فضل محمد صاحب۔ رحمہ اللہ کا نام سر فہرست ہے۔
حافظ فضل محمد صاحب رحمہ اللہ بلوچستان کے دبستان علم اور مذہبی سیاست کا ایک جانا پہچانا نام ہے، کوئٹہ میں آباد معروف قبیلہ “بڑیچ” سے تعلق رکھتے تھے، بچپن میں گھر پر ہی والدہ محترمہ سے قرآن مجید حفظ کیا، پتہ نہیں والدہ نے کتنی محبت اور اخلاص سے پڑھایا تھا، کہ وہ حدیث، تفسیر، فقہ اور معقولات میں وقت کے چوٹی کے شناور ہونے کے باوصف علمی اور عوامی حلقوں میں حدیث یا تفسیر کے شیخ پکارے جانے کی بجائے حافظ کے سابقے کے ساتھ پکارے جاتے تھے۔
ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ قاسم العلوم ملتان، جامعہ دار العلوم کبیر والا اور جامعہ حقانیہ میں پڑھا، دراسات علیا کےلیے کراچی کا رخ کیا، جہاں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون میں مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ سے کسب فیض حاصل کیا، اور یہیں سے ہی 1985فراغت ہوئی۔
زمانہ طالب علمی سے سیاست سے وابستہ رہے، ڈاکٹر سرفراز خان شہید رحمہ اللہ کے قریبی ساتھی ومصاحب رہے، دراسات کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد جمعیت علماء اسلام میں سرگرم عمل رہے۔ چنانچہ ابتدا میں ضلع کوئٹہ کے ناظم عمومی اور پھر امیر بنے۔
ایک مرتبہ ایوان بالا کے رکن رہے، کئی مرتبہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات بھی لڑے۔
آپ بیک وقت علم وسیاست کے دو انتہاوں سے سر گرم عمل رہے، چنانچہ صبح کو تدریس کےلیے تشریف رکھتے، جب دوپہر میں بخاری شریف تک کے اسباق سے فراغت ملتی، تو سیاسی سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوتے، آپ “كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء” کے تناظر میں سیاست عبادت سمجھ کر کرتے تھے، انہیں سیاست کے میدان میں جو مقام حاصل تھا، اس سے کہیں بڑھ کر وہ علمی حلقوں میں شہرت رکھتے تھے۔
دینی مدارس میں تدریسی عمل کے آٹھ، دس سالہ دورانیے کی آخری اور استاد کے لیے باعث اعزاز سمجھی جانے والی پوائنٹ صحیح بخاری کی تدریس ہے، یہی ہر مدرس کی دلی آرزو اور تمنا ہوتی ہے، یہاں پہنچ کر اسے شیخ الحدیث کا لقب ملتاہے۔ کسی بڑے ادارے میں ایک عام مدرس کےلیے اس منصب تک رسائی میں سال بیت جاتے ہیں، یہ حافظ صاحب کی ہی خصوصیت تھی، کہ انہیں عین شباب میں اللہ تعالی نے اس منصب پر فائز کر دیا۔
مجھے اس سے انکار نہیں کہ اس منصب تک پہنچنے کےلیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ان سے گزر کر کچھ نا اہل بھی اس منصب پر براجمان ہوجاتے ہیں، مگر حافظ کی شخصیت علمی حوالے سے ایسی تھی، کہ ان پر شیخ الحدیث کا لقب صحیح معنوں میں جچتا تھا، اگر کوئی میری اس بات کی تصدیق کرے کہ مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ جو علم وفن میں یکتائے روزگار تھے، کی نظر بھی معضلات فن میں ان پر جا ٹکتی ۔
سیاست میں وہ جمعیت علمائے اسلام کے سینئر مرکزی اراکین میں شمار ہوتے تھے، یہ اور بات ہے کہ جماعت میں جو فکری اختلاف چل رہاتھا، اس میں چونکہ وہ مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ کے ہم فکر تھے، جس میں ان کے ساتھ مولانا نور محمد صاحب رحمہ اللہ، مولانا عصمت اللہ صاحب اور جناب حافظ حسین احمد صاحب بھی تھے، دوسری طرف مولانا شیرانی صاحب مدظلہم اور ان کے فکری ہمنوا تھے، اور اس وقت جماعتی نظم ان کے ہاتھ میں تھا، اس لیے حافظ صاحب جیسوں کا آگے آنا محال تھا، آپ اس وقت کے جماعتی استحصال کا اندازہ حافظ حسین احمد صاحب جیسے سینئر  ترین، زیرک اور منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین کی پوزیشن سے لگائیں، کہ ملکی سطح پر وہ جماعتی بیانیے کی سب سے مؤثر آواز سمجھے جاتے تھے، جماعتی اور غیر جماعتی اجتماعات میں مہمان خاص کی حیثیت سے بلائے جاتے، جبکہ اپنے صوبے میں ان کو سینٹ یا پارلیمان کی ٹکٹ دینا تو دور کی بات، انہیں کسی صوبائی نظم کے تحت منعقدہ جماعتی پروگرام میں بحیثیت ایک مقرر کے بلائے جانے کی زحمت نہیں کی جاتی، حالانکہ ایک وقت تھا کہ سینٹ میں حافظ فضل محمد صاحب اور حافظ حسین احمد صاحب جماعت کی نہیں، اپوزیشن کی توانا آواز سمجھے جاتے تھے۔
یہ بات تو یہاں ضمنی طور پر مختصر عرض کردی، ورنہ اس وقت کی جماعت کی زبوں حالی ایک داستان طولانی ہے، جس کو تفصیل سے بیان کرنے کا نہ وقت ہے نہ ضرورت، تاہم اتنا عرض ہے، کہ اس نظام نے جماعت کے صوبے کی سینئر ترین قیادت کو جماعت سے لاتعلقی پر مجبور کردیا، چنانچہ مولانا عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ گوشہ نشین ہوگئے، مولانا نور محمد صاحب رحمہ اللہ استعفے دے بیٹھے، مولانا عصمت اللہ صاحب اور حافظ فضل محمد صاحب نے راہیں جدا کرلیں، اور حافظ حسین احمد صاحب صوبے کی حد تک کم از کم لا تعلق رہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو نقصان ہوا ناقابل تلافی تھا۔
بہر کیف جماعتی سینیارٹی رکھنے کے باوجود حافظ صاحب کا اوڑھنا بچھونا علم وتحقیق ہی رہا، سال بھر صحاح ستۃ پڑھانے کے بعد تعطیلات میں 15 شعبان سے 25 رمضان تک ہر سال قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر کراتے تھے۔
آپ منقولات کے ساتھ معقولات میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے، ایک کہنہ مشق اور فلسفہ تفہیم ونفسیات سے بہرہ ور مدرس تھے۔
پاکستان اور افغانستان میں ان کے ہزاروں شاگردتھے، مولانا عبدالغنی کی طرح وہ بھی واحد سیاسی عالم دین تھے، جن سے پاکستان اور افغانستان کے طلبہ یکساں استفادہ کرتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بلوچستان میں جماعت کے متوازی ایک دوسری جماعت تشکیل دی، تو اس کی ابتدائی اٹھان میں اگرچہ ہمارے بزرگ مولانا اللہ داد کاکڑ صاحب، اور مرحوم عبد الخالق بشردوست صاحب کا کردار تھا، قیادت مولانا عصمت اللہ صاحب کے ہاتھ میں تھی، مگر اسے مضبوط سیاسی قوت اور صوبائی سطح پر نمایاں سٹریٹ پاور رکھنے والی جماعت بنانے میں بنیادی کردار آپ کا رہا، اور آخر تک آپ ہی اس کی اصل رونق رہے۔
اس لیے اس کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کہ ان کی تشکیل کردہ جماعت کو اگر مولانا عصمت اللہ اور مولانا محمد حنیف صاحب کے کردار اور کچھ قبائلی بیک گروانڈ کی مضبوطی نے سہارا دیا، تو اس سے زیادہ حافظ کی علمی شہرت وحیثیت اور ان کے علمی حلقے کی وسعت سہارا بنی۔
حافظ صاحب بیک وقت ایک باکمال علمی شناور ہونے کے ساتھ وعظ وخطابت سے بھی بھر پور آشنائی رکھتے تھے، مگر وہ ایک عام واعظ کی طرح عوامی نفسیات کو کیش کرنے کےلیے قصے، کہانیاں سنا نے کے مکروہ عمل سے ہمیشہ فاصلے پر رہے، آپ کا بیان علم وفن کی ایک مجلس ہوتی، جس میں قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور اقوال سلف سے ارتجالی بر محل استدلالات کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے کہ مجمع عش عش کرتا، تقریر میں اتنی روانگی، کہ
گھنٹوں بیان میں مجمع خاموشی کے ساتھ جما بیٹھا رہے، ایسا تسلسل کہ سامعین تھکاوٹ ہی محسوس نہ کریں۔
فصاحت وبلاغت اس بلا کی ودیعت کی گئی تھی، کہ الفاظ موتیوں کی طرح چھلکتے، شیرین بیانی ایسی کہ کانوں کو وہ لذت کئی دن محسوس رہے، ہر لفظ اتنا صاف، واضح اور معنی خیز کہ عام واعظ کو اس کی ترکیب وترتیب ہی نہ سوجھے، مگر وہ بلاتکلف ترتیب دیے بغیر اس انداز میں اس مرحلے کو سر کرتے کہ اپنا مقدمہ دلائل سمیت کامیابی سے سامنے رکھتے۔
بیک وقت پشتو، اردو، عربی، فارسی کے ساتھ وہاں کے آباد برادر اقوام کی زبان بھی روانی سے بولتے، اس لیے آپ کی تقریر میں پشتون، بلوچ، براہوی اور فارسی دان کی شرکت یکساں ہوتی، اور آپ کسی کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیتے کہ یہاں ان کی زبان میں بات نہیں ہوگی، اور سامعین کے فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے جب کبھی دوران تقریر دوسری زبان میں بات کرنے لگتے، تو کچھ اتنی خوبصورتی سے زبان تبدیل کرتے کہ نہ آواز کے ردھم میں فرق آتا، نہ روانگی کی رفتار میں کوئی کمی آتی، اور نہ تسلسل کٹتا محسوس ہوتا، بلکہ آواز، لہجہ اور رفتار میں ذرا فرق کا احساس دلائے بغیر یہ عمل انجام پاتا۔
اپنے بیانات میں اکثر معاشرتی رویوں کو زیر بحث لاتے، معاشرے میں پنپتی خرابیوں پر گفتگو کرتے اور مصلحت پسند مذہبی طبقے کو جھنجھوڑتے تھے۔
آپ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ پڑوسی ملک میں لگی آگ سے متعلق ہے، ان کا دل ہمیشہ ان سرفروشوں کےلیے دھڑکتا تھا، ان کے استقامت وپامردی، جراءت وبہادری کے قصے موضوع سخن رہتے تھے، افغان مجاہدین اور جہاد سے آپ کا تعلق ایک دینی اور مذہبی رشتہ تو تھا ہی، لیکن اس کی ایک بڑی وجہ وہاں کے اچھے بھلے کردار کا آپ سے رشتہ تلمذ بھی تھا۔
آپ کو قدرت نے کئی ظاہری وباطنی کمالات اور خوبیوں سے نوازا تھا، کسی کے متعلق متقی وپرہیز گار ہونے کی گواہی دینا اگرچہ “هو أعلم بمن اتقى” کے ظاہر سے مجھے راس نہیں لگتا، پر ان کے زہد، خدا پرستی، دین دوستی، استغنا وتوکل کی گواہی میری طرح کئی دینے والے ہیں۔
آپ کے اندر جرات وبہادری، بے باکی وخو داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ جس زبان میں عوامی اجتماع میں ہمسایہ ملک کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے، اسی زبان میں اسی ملک کے صدر حامد کرزئی سے بات کرتے تھے، جس طرز ولہجے میں اپنے ملک کے حکمرانوں کو نشانہ تنقید بناتے تھے، اسی طرز ولہجے میں پارلیمنٹ کے اندر آواز اٹھاتے تھے۔
آپ اپنے موقف اور بیانیے میں کسی لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں تھے، جماعتی مجالس ہوں، عام اجتماعات ہوں، یا پارلمینٹ فلور ہو، ہر جگہ اپنا موقف بلاجھجک بیان کرنے کی عادت تھی، جماعتی اداروں میں شاید یہ واحد شخصیت تھی، جو مولانا شیرانی کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے تھے، اور انہی کی سخت گیر موقف جماعت کی فکری دوریوں کے فاصلے سمٹنے میں گاہے روکاوٹ بھی بنتا، آپ کا یہ سخت گیر موقف اور تند وتیز لہجہ میری طرح بہت سوں کو ناپسند تھا، مگر ان کی راست بازی اور سچائی پر انگلی اٹھانا آسان نہیں تھا۔
ان کی تشکیل کردہ جماعت کی قیادت اگر چہ مولانا عصمت اللہ صاحب دامت برکاتہم کے ہاتھ میں تھی، مگر پالیسی ساز اداروں میں شاید آپ ہی کا موقف وزنی رہتاتھا، عوامی سطح پر بھی جماعت میں ان کو زیادہ قدر ونگاہ سے دیکھا جاتاتھا۔
حافظ صاحب کو قدرت نے فطری رعب، وجاہت اور مومنانہ فراست سے نوازا تھا، جلال وجمال دونوں میں یکتا تھے، ان کے سامنے ہر کسی کو بات کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرےطوالد محترم مولانا جمال خان صاحب (اللہ تعالی ان کی عمر میں برکت فرمائے ) نے جن کی جماعتی پروگراموں اور اجلاس کے علاوہ بھی کبھی حافظ صاحب سے اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا، مجھے ایک مرتبہ فرمایا: کہ حافظ اپنی شخصیت میں بلا کا رعب رکھتے تھے، مجھے ان کے مجالس میں اس کا احساس ہوا ہے۔
مجھے کئی بار ان کی زیارت کا موقع ملا ہے، وہ ہمارے ہاں تشریف بھی لائیں، مگر ان غیر رسمی مجالس اور اجتماعات میں ان کی علمی گفتگو سے محظوظ ہونے کے علاوہ براہ راست استفادے کا موقع کبھی نہیں مل سکا، لیکن ان سے عقیدت کا جو تعلق قائم ہوا، وہ ان کی وفات کے بعد بھی تا دم قائم ہے، اب بھی جب کبھی ان کی یاد آتی ہے، تو بے اختیار ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔
وہ 12 مئی 2013 کو وہ ہم سے جدا ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔
گو وہ ہم سے تھے، مگر ان کی باتیں، ان کا انداز اور ان کی ادائیں نرالی تھیں، اس لیے وہ ہر 2 مئی کو یاد آتے ہیں۔
یا وہ جوہر ہی الگ تھا جوہر انسان سے
یا نکلتے اب نہیں ایسے جواہر کان سے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply