ادھورے پن کا خلا۔۔انعام رانا

ایک ایسا شخص جسکی نوجوانی سُرخ سویرے کے خواب دیکھتے ہوئے گزری ہو وہ تمام عمر اس خواب کا اسیر رہتا ہے۔ ویسے تو یہ اصول ہر نظرئیے پہ لاگو ہو گا لیکن نوجوانی کا سوشلسٹ مُلّا بھی ہو جائے تو دل سے مارکس نہیں نکلتا۔ ایسے میں ان ممالک میں کہ جہاں اس خواب نے حقیقت کا روپ بھرا ،ایک خاص دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ میں نے ہنگری، چیک ری پبلک اور پولینڈ کے اسفار میں یہ ہی جانچنے کی کوشش کی، لوگوں سے جو اس دور میں تھے گفتگو کی، اگرچہ بہت ہی کم کچھ اچھا سننے کو ملا۔ لوگ کمیونزم سے کیوں تنگ آ گئے تھے، اسکی کئی وجوہات، کئی پہلو ہیں جو ایک مکمل کتاب کے متقاضی ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کمیونزم/سوشلزم سے جان چھڑا لینے کے باوجود اس دور کی تربیت کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگ آج بھی “لبرل یورپ” کی نسبت کہیں زیادہ انسانی ہیں۔
اسی “تحقیقی جذبے” کے تحت ایک دن میں نے اپنے سُسر  سے بھی سوالات کیے۔ کئی اور باتوں کے علاوہ انھوں نے ایک مزے کی بات کی کہ “دیکھو انعام پولینڈ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ بھی مکمل نہیں ملا۔ کمیونزم تھا تو ادھورا، لبرل جمہوریت ہے تو ادھوری، مذہبی نظام تک ادھورا ہے”۔ مجھے یکدم لگا جیسے کسی نے پاکستان کے متعلق بات کی ہو۔

ہم نے سن سنتالیس میں ملک تو بنا لیا مگر اس کو چلانا کیسے ہے یہ طے ہی نہیں کر پا رہے۔ پارلیمانی جمہوریت، امریکی صدارتی نظام، فوجی آمریت، سول آمریت، کنٹرولڈ ڈیموکریسی، اسلامی سوشلزم، کیا ہے جو ہم اب تک ٹرائی نہیں کر چکے؟ مگر نتیجہ فقط ایک، مزید کنفیوژن، مزید افراتفری۔ ہم نے پارلیمانی جمہوری نظام اپنایا تو اس میں کبھی گورنر جنرل اور کبھی صدر کو اتنا بااختیار بنا دیا کہ جب چاہے بساط لپیٹ دے۔ ہم نے آمریت اپنائی یا ہم پہ تھوپی گئی ،جو اس میں جمہوری نظام کے پیوند لگا کر برہنگی چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ جمہوری نظام کچھ سال چلے تو ہمیں آمریت کا شوق آتا ہے اور کچھ سال کی نیم آمریت ہمیں جمہوریت کی یاد میں آہیں بھروانے لگتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر ایک نظام نے مایوسیوں  کو ہی جنم دیا اور ہم ہر وقت نظام کا رونا روتے رہتے ہیں۔

ہم نے یہ ملک دو قومی نظرئیے اور اسلام کے نام پہ حاصل کیا۔ مگر ملک بنتے ساتھ ہی ہم نے گیارہ اگست کی تقریر بھی کر دی۔ لیجیے صاحب اب باقی کی عمر یہ طے کرنے میں گزرے گی کہ ملک کو سیکولر ہونا ہے یا اسلامی۔ سیکولر والوں کی مانیں تو پھر علیحدہ ملک ہی کیوں بنانا تھا اور اسلامی والوں کی مانیں تو، انکی بھی  کیوں  مانیں کہ وہاں بھی خود تضادات در تضادات ہیں۔

اسی سیاسی ادھورے پن نے ہمارے قانون کو بھی متاثر کیا۔ ہم دنیا میں قانونی سسٹمز کے “بلینڈ” اور “بلنڈر” کی اعلیٰ  مثال ہیں۔ برطانوی قانونی نظام جس کے ہم وارث ہیں، کامن لاء  پہ اساس رکھتا ہے۔ ہم نے فوراً  اس میں رومن لا کے نظریات کو داخل کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ قانونی نظام کے اندر نظریات کا باہمی ٹکراؤ  پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ رہی سہی کسر تب نکلی جب ہمیں قوانین کو اسلامی بنانا یاد آیا کہ ہم تو ایک اسلامی ملک ہیں۔ اب ہم نے پہلے تو کہیں  کہیں “اسلامی شِقوں” کی پیوند کاری کی ،مگر ضیائی دور میں ملک کو مزید اسلامی بنانے کی ضرورت تھی کہ پڑوس میں روس اتر آیا تھا۔ چنانچہ یکدم پہلے سے گلے تک بھرے قانونی قالب میں حدود آرڈیننس و دیگر کو یوں ٹھونس کر بھرا گیا کہ کان پھٹنے پہ آ گئے۔ اس وقت ہمارا وکیل دنیا کا ایسا بہترین وکیل ہوتا ہے جو انگلینڈ، فرانس، اٹلی، امریکہ یا سعودی چلا جائے، وہ آسانی سے کچھ کورسز کر کے وہاں وکالت کر سکتا ہے کیونکہ اس کیلئے یہ سسٹم مکمل اجنبی نہیں ہوتے۔ البتہ ہمارے قانونی نظام کو اس کئی رنگی نے جوکر بنا دیا ہے۔ ہنسا تو سکتا ہے، مزید کچھ مدد نہیں کر سکتا۔

ہمارے تعلیمی نظام نے بھی اسکا بھرپور اثر پکڑا۔ ہمارے ہاں متوازی طور پہ انگریزی میڈیم اور اردو میڈیم کا “غیر دینی” نظامِ  تعلیم بھی ہے اور مدرسے کا تعلیمی نظام بھی۔ سرکاری کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ تعلیمی ادارے بھی لاتعداد موجود ہیں۔ اور یہ سب تقریباً ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ معیار تعلیم یکساں طور پہ ہر جگہ گھٹیا اور اور سلیبس آؤٹ ڈیٹڈ ہے۔ بس سب دھڑا دھڑا سند یافتہ طلبا مارکیٹ میں ڈمپ کرتے جا رہے ہیں۔ سماج میں انکی افادیت کیا ہو گی اسکی پرواہ  نہ  طلبا کو ہے نہ  تعلیم دینے والوں کو اور نہ  ہی تعلیمی نظام چلانے والوں کو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاسی تعلیمی و قانونی نظام ہی سماج کی بُنت کرتا ہے، اسکی تربیت کرتا ہے اور اسے آگے بڑھاتا ہے۔ ایسے شدید ادھورے پن نے بالآخر سماج پہ اثر ڈالنا ہی تھا اور وہ ایسا پڑا کہ آج بطور سماج ہم دنیا بھر سے کٹے ہوئے بھی ہیں اور داخلی طور پہ کمزور ترین بھی۔ یہ تینوں نظام نہ  تو ہمیں ایک قوم بنا پائے اور نہ ہی دنیا کیلئے کارآمد سماج۔ آج ہم ایک ایسا کنفیوزڈ معاشرہ بن چکے ہیں جسکی نہ  کوئی سمت ہے نہ  منزل، بس دائروں میں سفر جاری ہے۔ وہ ادھورا پن جو ہم نے اپنایا تھا آج ایک ایسا خلا بن گیا ہے جو ہمیں نگلتا جا رہا ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply