عمران خان کا نعرہ بھٹو۔۔سیّد محمد زاہد

آجکل عمران خاں خود کو بھٹو ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اس مہم کا باقاعدہ آغاز پریڈ گراؤنڈ میں ایک خط لہرا کر کیا گیا۔ بھٹو کے بغیر پاکستانی سیاست کا ہر پہلو نامکمل دکھائی دیتا ہے۔ ‘زندہ ہے بھٹو زندہ ہے’ کے معروف نعرہ کی حقانیت کا یہی سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس نعرہ پر پچھلی دہائی میں پی ٹی آئی میمز بناتی رہی ہے۔ پاکستان کے ہر حکمران کو بھٹو کا زندہ ہونا کھٹکتا رہتا ہے اور وہی حکمران جب اپوزیشن میں ہو تو بھٹو کی پیروی کی کوشش کر کے اس کی زندگی کو جلا بخشتا ہے۔
1977میں بھٹو کے خلاف اپوزیشن نے تحریک چلائی۔ جب مذاکرات کامیاب ہونے ہی والے تھے تو پس پردہ قوتوں نے اسے اپنی شکست جانتے ہوئے بغاوت کر دی۔ بھٹو سمیت تمام رہنماؤں کو ‘عارضی حفاظتی تحویل’ میں لے لیا گیا۔ جب بھٹو رہا ہوئے تو ان کا استقبال دیکھ کر حکمران ششدر رہ گئے، دوبارہ گرفتاری ہوئی اور پھر وہ اس قبر میں جا سوئے جہاں سے وہ ابھی تک حکمرانی کر رہے ہیں۔
ان کی جولائی 77 سے اپریل 79 تک کی زندگی پر ہزاروں کتابیں اور لاکھوں مقالے لکھے جا چکے ہیں لیکن کسی ایک میں بھی غیر قانوںی حکمرانوں کے خلاف مسلح یا خونی مزاحمت کا ذکر تک نہیں ملتا لیکن انہوں نے کسی بھی موقع پر آئین توڑنے والوں سے مفاہمت کا بھی نہ سوچا۔ ان کے عدالتی قتل پر پیپلزپارٹی کے کئی جیالوں نے خود سوزی کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
بھٹو کے جیالوں میں سے کئی جوان جو اُن کو آسمان سے اُترا نجات دہندہ خیال کرتے تھے، یہ زیادتیاں دیکھ کر بھڑک اٹھے۔ کئی کہانیاں بنیں۔ سینکڑوں کارکنان کو سیاسی بنیادوں پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی غریبوں کے جسم جیل کا مال اور کوڑے پڑنے کی جا بن کر رہ گئے۔ یہ تشدد، جیلیں، کوڑے اور پھانسیاں پیپلزپارٹی کے جیالوں کو بھٹو ازم کی راہ سے نہیں ہٹا سکے۔
ان جیالوں نے اپنی جانیں قربان کر کے فوجی آمریت کا مقابلہ کیا۔
چوہدری ظہور الٰہی بھٹو کے سخت مخالف تھے۔ سترمیں اٹھنے والے پیپلز پارٹی کے سونامی میں دولت کے سہارے گجرات سے اپنی سیٹ بچا لائے تھے۔ پی این اے کی تحریک کی فنڈنگ میں پیش پیش تھے۔
جنرل ضیا الحق نے ہراس شخص کو اپنے ساتھ جوڑ لیا جو بھٹو کا مخالف رہا تھا۔ چوہدری صاحب ایسے لوگوں کی صف اول میں شامل تھے اس لیے ضیاالحق کے دل کے قریب تھے۔ ظہور الٰہی نے فوجی ڈیکٹیٹر سے بھٹو کے قتل کے بعد اولیں ملاقات میں وہ قلم بخشنے کی استدعا کی جس کی نوک سے بے گناہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم پر دستخط کیے گئے تھے۔ یہ چوہدری خاندان کی آمریت کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کی توثیق تھی۔
الذوالفقار کا نشانہ مولوی مشتاق تھے اور قتل چوہدری ظہور ہو گئے۔ ویسے غلطی ان کی بھی تھی۔ ان کو باقاعدہ اطلاع ہو چکی تھی کہ وہ نشانہ بن سکتے ہیں۔ وہ خود کابل سے آنے والے گرفتار آصف بٹ سے فون پر اس معاملہ میں بات کر چکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے الذوالفقار کے اصل شکار مولوی مشتاق سے میل ملاپ جاری رکھا۔ قاتلوں کو جب پتا چلا کہ ظہورالٰہی مارے گئے ہیں توانہوں نے فون پر افسوس کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اب اس قلم کو چوہدری صاحب کے جسد خاکی کے ساتھ دفن کرنا۔
گاڑی میں دستی بم رزاق جھرنہ نے پھینکا تھا۔ وہ بھٹو سے دوستی نبھاتا اس کے نعرے لگاتا پھانسی پر چڑھ گیا۔ جیالے اتنے جوشیلے تھے کہ چوبیس سالہ عبدالرزاق جھرنے کو جب پھانسی پیرا سے گھاٹ کی طرف لے جایا جارہا تھا تو وہ ٹپے گا رہا تھا
بازار وکیندیاں تاراں
اساں بھٹو شہید دے یار آں
کہا جاتا ہے کہ جھرنا کی پھانسی کے وقت چوہدری خاندان پھانسی گھاٹ پر موجود تھا۔ ان کو گھر واپس جانے کی جلدی تھی اس لیے صبح کا انتظار کیے بغیرجھرنا کومقررہ وقت سے پہلے ہی لٹکا دیا گیا۔
اس کے علاوہ عثمان غنی، ادریس بیگ اور ادریس طوطی مختلف الزامات میں پھانسی پر چڑھا دیے گئے۔ شاہنواز بھٹو کو زہر کا کیپسول کھانا پڑا اور مرتضیٰ بھٹو کو اس کے گھر کے سامنے اس کی بہن کی مفلوج حکومت کے آخری دنوں میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ بھٹو کی بےنظیر بیٹی ایک فوجی حکمران کی مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئی۔
ذوالفقار علی بھٹو یا اس کا خاندان کا کوئی بھی فرد ہو ان میں سے کسی نے بھی کسی غیر جمہوری قوت سے مدد نہ مانگی۔ وہ سب اداروں کی ماوراۓ آئین حرکتوں کے ہمیشہ مخالف رہے۔ اس کے لیے پارٹی کے جیالے اپنے لیڈروں کا ہراول دستہ بنے رہے اور وہ خود ایک ایک کر کے قربان ہوتے گئے۔
عمران خان جو کرکٹ میں غیر جانبدار ایمپائر متعارف کروانے کے دعویدار ہیں، سیاست ایمپائر کے سہارے کر رہے ہیں۔ اس کے کہنے پر 2014 میں دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ غیر جمہوری کنیڈین شہری کی مدد سے ڈی چوک میں قبریں کھودتے رہے۔ ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے انتظار میں اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیتے رہے۔ خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت کی مدد سے الیکشن لڑے۔ ہمیشہ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتے رہے۔ عمران نے تھرڈ ایمپائر کی مدد سے اپوزیشن کا جینا دوبھر کردیا۔ کوئی ایسا لیڈر نہیں جس نے جیل یاترا نہ کی ہو۔ گھر کی عورتوں تک کو نہ بخشا گیا۔
لیکن پاکستان جیسے ملک پر حکومت کرنا کھلاڑیوں کے بس کی بات نہیں یہاں تو طاقتور ترین ٹیکنوکریٹ اور مارشل لا بھی ناکام رہے ہیں۔ جب عمران خاں کی ناکامیوں کا جوا ان کے پشت پناہوں کی گردن پر بھاری ہوگیا تو انہوں نے اپنی جان بچاتے ہوئے اسے اتار پھینکا۔ اب وہ ہر جلسے میں ان کو طعنے اور کوسنے دے کر دہائی تہائی مچا رہے ہیں اور پھر سے ناجائز مدد کے خواستگار ہیں۔ خونی لانگ مارچ کی دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں غیرآئینی مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔
ساتھ ان چوہدریوں کو لیا ہوا ہے جو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کے قاتلوں کو ہلا شیری دیتے رہے ہیں اور اس وقت سے لے کر اب تک صرف اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرتے رہے ہیں۔
خود کو بھٹو کا پیروکار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی جن قوتوں سے مسلسل مخاصمت رہی ہے، ان کی مدد سے سارا کھیل رچانا چاہتے ہیں۔ کھلاڑی عمران خان ہمیشہ کھیل کی زبان میں بات کرتے ہیں تو بہتر ہوگا کہ بھٹو کا میونخ اولپمکس ہاکی کے فائنل میں ارجنٹینا کے ایمپائر کی مخالف ٹیم کی مدد کرنے پر بیان پڑھ لیں۔
”میں غصے سے بھنا اٹھا۔ میں ارجینٹینا سے کل ہی تعلقات منقطع کر لوں گا۔“

Advertisements
julia rana solicitors

خاں صاحب سوچ لیں جس بھٹو کی نقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس نے تو ایک ایمپائر کی ذاتی حرکت پر اس کے ملک سے تعلقات خراب کر لیے تھے۔ خاں صاحب آپ اپنے ملک کے اداروں کو دھمکیاں لگا رہے ہیں کہ ان کی حمایت میں دھاندلی کرکے اپنے ملک کے حالات خراب کر لیں۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply