گردش ایام۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

زندگی خدا کا جمالیاتی معجزہ ہے۔اسی حقیقت سے آشنا ہونے کے لئے خیالات کی مجسمہ سازی سے سوچ و بچار کا چراغ جلا کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے اور ان تلخ حقائق کا تبادلہ خیال کیا گیا ہے جو زندگی سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔
آسمان و زمین کی وسعتوں میں ایک چیز حیرتوں کے کرشموں سے منور ہے جس کا سچا، کھرا اور سندر نام زندگی ہے جو آفاقی صداقتوں کی بدولت آج دن تک زندہ ہے اور جب تک دنیا کا شیرازہ بکھر نہیں جاتا یہ اپنی صداقت و امانت کا بھرم قائم رکھے گی ۔اس لیے زندگی ایسا کرشماتی معجزہ ہےجس کے پہلے فرزند حضرت آدم اور بی بی حوا ٹھہرے جن کے بارے میں انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ان کے روح، بدن اور جان میں زندگی کی آکسیجن کیسے آئی ؟

بلاشبہ زندگی اپنے تصورات میں کرشمات و آثار سے مزین ہے کیوں کہ آسمان و زمین کی تخلیق کے ساتھ ہی انسان کی تخلیق بھی معرض وجود میں آ گئی تھی جس کے پہلے فرزند آدم اور حوّا ٹھہرے۔ جنہیں دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے انسانیت کا شرف و تاج حاصل ہوا ۔بعد ازاں نسل انسانی کا سلسلہ زمین کی حدوں تک پھیلنے لگا ۔

البتہ حیرت ہے نسل انسانی کا یہ سلسلہ صدیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی رکا نہیں ،تھکا نہیں، تھما نہیں بلکہ نسل در نسل اس کا آنچل زندگی کی رونق سے دوبالا ہوتا گیا اور اپنی قدر و قیمت میں نایاب ۔ کیونکہ حقیقت ایک ایسی تجلی ہے جس کے رنگوں و اثرات آنکھوں میں اتر کر رشک و تحسین کا سبب بن جاتے ہیں ۔

تعجب ہے خدا نے اس کا سفر ماں کی کوکھ سے شروع کیا اور ماں کے نصیب کو وہ جلا بخشی جس کی روشنی آدمیت بشریت اور انسانیت کے روپ میں پھیل گئی ۔
ہماری زندگی بھی عجیب و غریب کرشمات سے مزیّن ہے جس کے اندر گہرے مکاشفے ، بھیدوں کا سمندر ،خیالات و تصورات کے چشمے ،رشتوں کی سبیلیں ،امید و محبت کی روشنی ،ایمان و عمل کا چراغ ،ملنساری کے روپ ،اور خوشی و غم کے ان گنت واقعات جو حسرتوں کا پیراہن پکڑے ہوتے ہیں جو انسان کو ایسی فطری وعملی زندگی کی جستجو کے عادی بنا دیتے ہیں جہاں زندگی کی پکار معجزے کی صورت بن کر اپنی آواز بلند کرتی ہے۔
یوں زندگی میں خوشیوں اور غموں کی برسات ایک مثلث پر برسنا شروع ہوتی ہے۔اور وہ مثلث کے تینوں زاویے بچپن، جوانی اور بڑھاپا پر اپنا سفر ختم کر دیتے ہیں ۔ زندگی کے اس مختصر سفر میں خوش نمائی ،خوش بختی ، اور خوش نصیبی قسمت کے رنگوں سے مزین ہو کر دامن کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔اور زندگی فلک کی کیسی سوغات ہے جو عزت ،حیات اور دولت کے ساتھ نمودار ہوتی ہے اس کی بال و پر میں اتنا زور اور طاقت ہوتی ہے جو اپنی اڑان میں سات سمندر بھی پار کر لیتی ہے ۔عرش برین سے ان کا اتار الگ سی برکات و فضائل سے پر ہوتا ہےجو زندگی کو تین لقموں سے سیر کرتا ہے جو نصیبوں کے کھیل ،عزت کا معیار ،اور دولت کی بہتات کے سمندر جاری کرتا ہے ۔

زندگی اس لیے بھی انوکھی ہے کبھی یہ محلوں میں آنکھ کھولتی ہے اور کبھی کھلے آسمان کی جھونپڑیوں میں لیکن اپنی قدر و قیمت کہیں بھی خاک میں ملنے نہیں دیتی۔ کیوں کہ یہ ہر امیر وغریب کی پسندیدہ خوش خبری ہے کیونکہ ہر گھر اور خاندان میں یہ خوشیاں بن کر برستی ہے ۔

یہ ایمان امید اور محبت کا دامن پھیلا کر ایسے تصورات کا خاکہ تیار کرتی ہے جہاں بس حسرت مکاشفائی معمہ بن جاتی ہے ۔کچھ کو تو یہ پیدا ہونے کا موقع ہی نہیں دیتی جہاں بانجھ موسموں کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور کچھ سے بچپن ہی میں اپنا حق چھین لیتی ہے اور اسے حقوق سے محروم کر دیتی ہے جو بچے آنکھ کا تارا ہوتے ہیں وہ بہت جلد نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں جن کی یادیں اور باتیں دل کو

آنسوؤں کے سمندر سے بھگو دیتی ہیں اور جب یہ جوانی کا حق چھینتی ہے تو آسمان و زمین بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور پھر انسان کے دکھ تو خزاں کا موسم آباد کر لیتے ہیں۔انسان بھی کیا چیز ہے جو زندگی پر تحقیق و جستجو کے فن پارے تراشتا ہے ۔ لیکن یہ پھر بھی اپنی ذات اور مثال میں انوکھی ہے کیونکہ یہ فلک سے مجسّم ہوئی ہے اس نے فضا کی معطر فضاؤں کا سفر کیا ہے۔ یہ اپنی مسافت دن مہینوں اور سالوں میں طے کرتی ہے کہ میں نے کتنی دیر انسان کے روح بدن اور جان کا حصہ رہنا ہے ۔ یہ خاموش تماشائی بن کر سب کاموں کو دیکھتی ہے اور ان مناظر کو اپنے اندر محفوظ بناتی ہے جو انسان کے اعمال و کردار کا شجرہ ہوتا ہے۔

آج انسانیت بشریات اور آدمیت شرمندگی کے لباس میں مبتلا ہے کیونکہ دنیا میں کسی نہ کسی جگہ ہنگامہ آرائی قتل و غارت ،رنجشیں قباحتیں ،لڑائی و جھگڑے ،اسے شرمناک حد تک دکھ دے رہے ہوتے ہیں جسے محسوس کر کہ زندگی کو سنوارا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ کچھ فیصلوں نے تو ہمیں دربدر کر رکھا ہے جس کی پختہ مثال پرندہ اپنے گھو نسلے سے گرنے کے بعد کبھی خود واپس نہیں آتا کیوں کہ وہ دوسروں کا محتاج اور مدد کا طلبگار ہوتا ہے ۔

اسی طرح ہم بھی زندگی کے بغیر بے یارومددگار زمین کی مٹی ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ خاک ہے اور پھر خاک میں لوٹ جائے گا ۔ جس کے باعث ہماری ساری شان و شوکت زمین کی مٹی میں مل جا تی ہے،کیونکہ جب ہم زندہ ہوتے ہیں تو ہمارے جسم و روح میں ناچاقیاں ،برے خیالات ،بے لگام گھوڑے کی طرح رقص کرتے ہیں جنہیں روکنے کے لیے شاید ہمارا ضمیر ملامت ضرور کرتا ہوگا کیونکہ ہم بے سمت سفر کر رہے ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ ناسور اس قدر گہرا ہو جاتا ہے کہ پھر یہ ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتا۔

زندگی ہم سے بے شمار سوال پوچھتی ہے لیکن خود بے سوال ہے ؟ کیونکہ جب یہ ساتھ چھوڑتی ہے تو ہم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں کیونکہ کسی کو اپنے بارے میں پل بھر کی خبر نہیں ہوتی کہ میرے ساتھ اچانک کیا ہو جائے گا ؟ ہما ری دنیا اتنی وسیع و عریض ہے جس میں گردشں ایام سات براعظموں سے زیادہ بڑے اور گہرے ہیں۔ جنہیں دریافت کرنا انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔
ذرا اس بات کو ذہن میں رکھ کر سوچیں ہمارے حاصلات و ثمرات کس کے لئے ہیں ؟ یقینا ہمارا جواب نسلوں کی بقاء اور خوشحالی کے لیے ہوگا پر اس میں بھی وہ آسودگی اور توشہ آخرت کے نمونے نہیں ملتے کیونکہ یہ دھرتی اس بات کی گواہ ہے کہ ایک نسل تو عیش و عشرت دیکھتی ہے اور دوسری غربت کی خاک چاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے تعلقات و روابط بھی وقتی آس و امید کی جھونپڑی بناتے ہیں۔آئیں! آج تھوڑا سا وقت نکال کر گردشِ  ایام پر غور کریں کہ میں نے اپنی زندگی کس طرح گزاری؟ اور کس طرح گزار رہا ہوں؟ ہماری اخلاقی حس یعنی ضمیر ہمیں اس بات کی یقین دہانی کروا دے گا کہ ہماری سمت درست ہے یا غلط۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply