• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیاست ، سوشل میڈیا اور اخلاقیات کی پامالی۔۔مظہراقبال کھوکھر

سیاست ، سوشل میڈیا اور اخلاقیات کی پامالی۔۔مظہراقبال کھوکھر

وطن عزیز کی سیاست میں عدم برداشت ، گالم گلوچ ، الزام تراشی ، کردار کشی اور اخلاقیات کی پامالی کوئی نئی بات نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ اس طرح کے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی مخالفت میں اخلاقیات کی تمام حدوں کو پھلانگ کر کردار کشی کی بدترین مثالیں قائم کیں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئی محترمہ بینظیر بھٹو کی عریاں تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھینکی گئیں مخالفین کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئیں الزامات لگائے گئے مگر آج سوشل میڈیا پر اخلاقیات کا جس طرح جنازہ نکالا جارہا ہے یہ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہے پہلے تو محض پرنٹ میڈیا ہوتا تھا مگر اس وقت اخبارات کے بھی اصول اور ضوابط ہوتے تھے جس کی وجہ سے اس طرح کی کوئی بات پردے میں کی جاتی تھی لفظوں کے استمال میں احتیاط کی جاتی تھی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا تھا مگر آج ٹیکنالوجی کے دور میں الیکٹرانک میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں آنے والی جدت نے جہاں پوری دنیا کو سمیٹ کر انگلیوں کی پوروں تک محدود کر دیا ہے اور بہت سی آسانیاں پیدا کر دیں ہیں مگر مواصلاتی فاصلے کم ہونے کے باوجود دلوں میں فاصلے بڑھا دئے ہیں رابطے بھی بڑھ گئے ہیں فاصلے بھی بڑھ گئے ہیں لوگ قریب تو ہوتے ہیں مگر ساتھ نہیں ہوتے۔ پہلے اختلاف میں احترام کا عنصر موجود تھا اختلاف اور نفرت میں فرق تھا لوگوں میں سردی گرمی بھی ہوجاتی تھی سیاسی لڑائیاں بھی ہوتی تھیں تنازعات بھی جنم لیتے تھے مگر اس کے باوجود گنجائش ہوتی تھی واپسی کے دروازے بند نہیں ہوتے تھے برداشت ہوتی تھی مگر آج سوشل میڈیا کے دور میں صورتحال مختلف ہے. کوئی نہیں جانتا معلوم سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر بنائے گئے اکاؤنٹ کے پیچھے کون ہے تصویر کس کی ہے نام کس کا ہے حقیقت کیا ہے بظاہر کیا نظر آرہا ہے اور پس پردہ مقاصد کیا ہیں اور پھر اس سے بھی آگے سوشل میڈیا پر ہر شخص دانشور ہے ہر شخص صحافی ہے ہر شخص وکیل ہر شخص جج ہے ہر شخص تجزیہ کار ہے ہر شخص سیاستدان ہے اور ہر شخص عالم دین ہے کوئی قانون سکھاتا اور کوئی فتوے دیتا نظر آتا ہے کوئی حب الوطنی کے سرٹیفكیٹ دیتا دکھائی دیتا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے جس کو غدار قرار دے دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بات درست ہے کہ سوشل میڈیا کے فورمز پر لوگ مختلف معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں رائے کا اظہار شعور اور ایک زندہ معاشرے کی علامت ہوتا ہے مگر رائے دینے اور رائے ٹھونسے میں فرق ہوتا ہے بدقسمتی سے ہم اس فرق کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے ہر شخص انفرادی طور پر اور کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی صورت میں اجتماعی طور پر اس بات پر بضد دکھائی دیتا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے یا اس کا لیڈر جو کہہ رہا ہے وہی حق اور سچ ہے اور جو اسے نہیں مانتا وہ باطل ہے غدار ہے جھوٹا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اسے دین سے بھی خارج کر دیا جاتا ہے اس کی سب سے اہم وجہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ہمارے سیاستدان ہیں اور پھر ریاست کو بھی اس سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ تربیت ہی کردار کی بنیاد ہوتی ہے مگر ہماری بنیاد کمزور ہے تو کردار کیسے مضبوط ہوسکتا ہے کسی نے کبھی بھی اس حساس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا کسی نے بھی آج تک اپنے سوشل میڈیا کارکنوں کی اخلاقی تربیت پر غور نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد ایک باکردار معاشرہ نہیں بلکہ ہر قیمت پر اپنے مخالفین کی کردار کشی ہوتی ہے اور نوجوانوں کو استعمال کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے ہوتے ہیں تو ایسے میں کوئی جماعت کس طرح اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت کا خطرہ مول لے سکتی ہے یہی وجہ سوشل میڈیا پر ہمیشہ اودھم مچا رہتا ہے ہمیشہ جنگ کا ماحول رہتا ہے گالم گلوچ تو ایک عام سی بات ہے بات اگر لفظی جنگ تک رہتی تو بھی قابل برداشت تھی مگر بات بہت آگے بڑھ چکی ہے مختلف ایپ استعمال کر کے ایسی غیر اخلاقی ویڈیوز کا سلسلہ چل نکلا ہے کہ جن کے بارے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا سر کسی کا دھڑ کسی کس آواز کسی کی اور کردار کسی کا نہیں معلوم یہ سلسلہ کہاں پر جاکر رکتا بے۔
یاد رکھئے بہت کچھ بگڑ چکا ہے مگر سب کچھ نہیں بگڑا اب بھی وقت ہے صورتحال کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے معاملات کو بہتر کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو ذات کے خول سے نکل کر ملک اور قوم کے لیے سوچنا ہوگا اور خاص طور ان نوجوانوں کے متلعق سوچنا ہوگا جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے وقت کی اہم ضرورت ہے سیاسی کارکنوں کی اخلاقی تربیت کی جائے اختلاف اور نفرت میں فرق واضح کیا جائے سیاستدانوں کو اس طرح کا لب و لہجہ استمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے جس سے نچلی سطح پر اشتعال پیدا ہو اس طرح کا رویہ نہیں اپنانا چاہئے جس سے سوسائٹی میں نفرت کو فروغ ملے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کیونکہ عدم برداشت اور نفرت کی یہ آگے جس طرف سے بھی جلائی جائے گی نقصان اس ملک کا ہوگا پوری قوم کا ہوگا اور ہم سب کا ہوگا یقیناً کوئی بھی شخص نہیں چاہئے گا کہ اس ملک کا نقصان ہو حکومت اپوزیشن سمیت پوری سیاسی قیادت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتی ہے لیکن اگر اختلاف کو نفرت میں بدل دیا گیا تو نہ صرف پورا معاشرہ بدصورت ہوجائے گا بلکہ ہم نفرت کی ایک ایسی دلدل میں دھنس جائیں گے جس سے نکلنے کے لیے کئی نسلوں کو قیمت چکانی پڑے گی۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply