نیکی کر دریا میں ڈال۔۔قمر رحیم خان

پہلا رمضان ہے جس میں پیٹ کے ساتھ دماغ بھی خالی ہو گیا ہے۔بات فتورکی حد تک رہتی تو اچھا تھا مگر نیکی کا تصور بھی جاتا رہا۔‘ نیکی کر دریا میں ڈال’۔ پہلی بار جب پتن پر دریا دیکھا تو خیال آیا، نیکی کرنے کے لیے کتنا دور آنا پڑتا ہے۔ خیر یہ تو بڑوں کاکام ہے ۔ چلو پہلی بار نیکی دیکھنے کا موقع تو ملے گا۔ میرا خیال تھا لوگ اپنی اپنی جیبوں سے نیکیاں نکال نکال دریا میں پھینکیں گے۔ لیکن جب بس کی چھت پر نظر پڑی تو دیکھا پوری چھت نیکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں کچھ اُداس ہو گیا۔ کب یہ بس نیکیوں سے خالی ہو گی اور کب پنڈی پہنچے گی۔ خدا خدا کر کے  لوگوں نے چائے ختم کی اور بس چلی تو دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ بس پُل پر چڑھی تو میں بھی سیٹ پر اُکڑوں بیٹھ گیاکہ نیکیوں کو دریا برد ہوتے دیکھ سکوں۔ مگرمیری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ بس پل سے گزر کر سڑک پر آگئی مگر کسی نے ایک نیکی بھی دریا میں نہیں ڈالی۔ اتنی بڑی بس میں کسی کے پاس ایک بھی نیکی نہیں تھی؟ ایسا تو نہیں ہو سکتا۔ سوچا آگے کسی مخصوص جگہ سے نیکیاں پھینکی جاتی ہوں گی۔ مگر دریا بھی گزر گیا،ایسا کوئی مقام نہ آیا جہاں لوگ خود کو نیکیوں کے بوجھ سے آزاد کراتے۔ بس ان نیکیوں سمیت پنڈی میں داخل ہو گئی۔اور میں سوچتا رہ گیا، لوگ ان نیکیوں کو دریا میں ڈالنے کی بجائے کدھر لے گئے۔ کیا بیچنے لے گئے ہیں؟ایک نیکی کتنے میں بِکتی ہو گی؟اور ان ڈھیر ساری نیکیوں کا خریدار کون ہوگا اور کتنا امیرہوگا؟دوسرے دن میں نے دیکھا کہ نیکیوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک ہمارے آگے آگے جا رہا ہے۔میرے تجسّس اور خوشی میں اضافہ ہو گیا۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد جب ہماری ٹیکسی ٹرک کو کراس کرنے لگی تو میں نے شور مچا دیا‘‘ ٹرک کے پیچھے چلو۔ٹرک کے پیچھے چلو’’۔نانا نے پیچھے مڑ کر پوچھا‘‘ ٹرک کے پیچھے کیوں چلیں’’۔
‘‘ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ٹرک نیکیوں کو کہاں اتارے گا’’؟ میں نے جلدی سے جواب دیا۔
‘‘نیکیاں؟ کون سی نیکیاں’’؟ نانا کی بڑی بڑی آنکھوں نے حیران ہو کر مجھ سے پوچھا۔
‘‘وہی نیکیاں جو راولاکوٹ سے لوگ لائے تھے، وہ اس ٹرک پر کہیں جا رہی ہیں’’۔ میں نے نانا کو اندر کی بات بتائی۔
نانا نے مسکراتے ہوئے ٹیکسی والے کو کچھ اشارہ کیا تو وہ ٹرک کے پیچھے آگیا۔وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا‘‘ ہم زیادہ دیر اس ٹرک کے پیچھے نہیں چل سکتے۔ اس لیے کہ ہمارے راستے الگ ہیں’’۔

جلد ہی میں نیکیوں کو بھول کر ہاکی اور گیند میں مصروف ہو گیا۔ اولڈ کامران ہوٹل کی دوسری چھت پہ ہاکی کھیلنے کے بعد میں نے تھک کرپانی پیا اور پھر کھڑکی کے ساتھ لگ کر نیچے سڑک پر رینگتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔ اتنے میں ایک گدھا نمودار ہوا ۔ اس کے پیچھے ایک ریڑھی لگی ہوئی تھی جس پر بہت ساری کتابیں رسیوں سے بندھی پڑی تھیں۔ نانا اپنے دوست کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے، میں نے ان کا منہ پکڑ کر سڑک کی طرف موڑا اور پوچھا ‘‘وہ کیاہے’’؟
‘‘وہ گدھا ہے’’۔
‘‘مگر اس کے پاس کتابیں بھی تو ہیں’’۔
‘‘وہ پڑھنے جا رہا ہے’’۔نانا کا دوست جھٹ سے بولا۔ ‘‘اور تم اپنی زندگی میں بہت سارے گدھوں کو پڑھتے دیکھو گے’’۔ کمرے میں ایک قہقہہ بلند ہوکر میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ میری آنکھیں بے یقینی کے ساتھ نانا کے دوست کو دیکھنے لگیں۔ وہ دونوں شاید میری کیفیت سے محظوظ ہو رہے تھے۔ میں نے سڑک کی طرف دیکھا ، گدھا بہت دور نکل گیا تھا۔ پھر جب میں نے تانگہ دیکھا تو نانا کی طرف دوڑتا ہوا گیا۔ وہ چار پانچ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور وہاں سے سڑک نظر نہیں آرہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بولے‘‘ اب کیادیکھ لیا ہے’’؟
‘‘لالہ ایک گھوڑے کے پیچھے ریڑھا بندھا ہے،اس پر کئی لوگ سوار ہیں اور ایک آدمی گھوڑے کو ماررہا ہے ،گھوڑ ا بھاگ رہا ہے اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے’’۔
نانا کے کل والے دوست نے مجھے بلایا اور میز پر رکھے ہوئے مٹھائیوں کے ڈبے سے ایک برفی اٹھا کر دی۔میں نے برفی واپس ڈبے پر رکھ دی۔
‘‘کھاتے کیوں نہیں ہوبیٹا’’؟سفاری سوٹ میں ملبوس ایک کلین شیو آدمی نے پوچھا۔
‘‘یہ گھوڑے کی جھاگ سے بنی ہوئی ہے’’۔ میں نے جواب دیا۔
محفل میں ایک قہقہہ لگا اور میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ سفید مونچھوں اور بڑی توند والا بوڑھا بیرا ٹیرس کے ایک کونے میں دیوار سے لگا ہوا تھا۔ سفید وردی پر اس کے گندمی چہرے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔اس نے سگریٹ ختم کیااورکچن میں داخل ہو گیا۔ میں جالی والے دروازے سے لگ کر بیرے کو دیکھنے لگا۔ وہ چائے بنا رہا تھا اور بار بار ایک میلی ٹاکی سے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا۔ مجھے پتہ چل گیا ، دراصل وہ بھی گھوڑے کی وجہ سے پریشان تھا ۔ دوسری صبح میں نے دیکھا، وہ بہت خوش خوش کہیں جا رہا تھا۔
‘‘یہ گھوڑے کو چھڑانے جا رہا ہے’’؟میں نے نانا سے پوچھا۔
‘‘نہیں، دراصل یہ خو دبھی ایک گھوڑا ہے اور آج سے چھٹی پر جارہا ہے’’۔ میں نے حیران ہو کر نانا کی طرف دیکھاتوانہوں نے سر ہلا کر اپنی بات کی تصدیق کی۔ آدمی گھوڑا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے دل میں سوچا۔ شاید یہ بھی گھوڑے کی طرح تانگہ کھینچتاہوگا۔
‘‘کتنی چھٹی جا رہا ہے’’؟میں نے پوچھا۔ ‘‘یہی کوئی دس دن’’۔ جواب سن کر میں نے نانا سے پھر سوال کیا۔
‘‘ یہ آدمی زندگی میں صرف دس دن خوش رہتا ہے’’؟ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور میرا سوال راستے میں رہ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم آٹھ دس دن پنڈی میں گزار کر واپس روانہ ہو گئے۔ پتن پہنچ کر میں نے دیکھا، بس کی چھت پر نیکیوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔اب بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ لوگ ادھر سے تھوڑی سی نیکیاں لے کر جاتے ہیں اور اس کے بدلے میں پنڈی سے کئی گنا زیادہ نیکیاں لے کر واپس آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ راولاکوٹ کی نیکیاں مہنگی اور پنڈی کی سستی ہیں تبھی تو زیادہ ملتی ہیں۔ تو گویا لوگ نیکیوں کو دریا میں نہیں ڈالتے، ان کا کاروبار کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply