وصیت۔۔سلیم مرزا

میں امی جان کے پیچھے بیٹھا ان کے کندھے دبا رہا تھا جب انہوں نے کہا
“پتر سلیم، 80  سال بہت ہوتے ہیں, میں تھک گئی ہوں، جانا چاہتی ہوں، ”
میں کھلکھلا کر ہنس دیا اور انہیں بانہوں میں لپیٹ کر کاندھے پہ سر رکھ دیا۔

“لو دسو، جاپان میں ایک مائی ایک سو تیس سال کی ہے، سگریٹ بھی پیتی ہے “میں نے کہا تو انہوں نے گردن موڑ کر مجھے دیکھنا چاہا ۔۔۔
ان کے رخسار کی ساری ملاحت میرے کھردرے گال پہ اُتر آئی ۔
” تیرے منہ سے سگرٹ کی بو آرہی ہے “انہوں نے کہا تو میں نے چہرہ پیچھے کرلیا ۔اور دونوں ہاتھوں سے ان کے نرم کندھوں کو دبا کرکہا
“سارا دن بیڈ توڑتی رہتی ہیں ۔جُتی تک پڑپوترے سدھی کرکے دیتے ہیں، آپ جیسی مائیوں کو بس بچے دکھی کرنے کا موقع چاہیے ۔”

میں نے کہا تو وہ ناراض ہوگئیں ۔سفید چہرہ پنک ہوگیا ۔
“جتنا تیرا دکھ ویکھیا ہے ۔اللہ کسی ماں کو نہ وکھائے ”
انہوں نے جل کر کہا تو میں نے ایک اور جپھی لگا لی ۔۔
“ویسے اگر آپ چلی گئیں تو پروہنے کون سنبھالے گا ۔ہم نے تو صدمے سے پاغل ہوجانا ہے ”
میں نے نکتہ اٹھایا تو کہنے لگیں ۔
“تم سے تو مجھے پہلے بھی امید کوئی نہیں ۔دولاکھ پڑا ہے میرا لالے کے پاس، اسے کہا ہے میرا سب کچھ شاندار کرنا، ۔خبردار جو کوئی بھی رویا تو  ۔۔”
ایک آنسو چپکے سے نکل گیا مگر میں کہاں چپ رہتا ۔

“فوتگی والے دن پکانا کیا ہے “؟
“جو بھی پکانا اچھا پکانا ”
ان کی سوئی اب بھی وہیں اٹکی تھی

“میں گجرات ایک جنازے پہ گیا تھا ۔دیگی مٹن کڑاہی اور الٹے توے کی روٹیاں تھیں ۔ساتھ منرل واٹر کی بوتلیں بھی “پہلی بار پتہ چلا کہ آنسوؤں میں حس مزاح نہیں ہوتی
“چل تو مٹن کڑاہی پکا لینا “وہ اپنی دھن میں کہے جارہی تھیں

“مگر گجراتیوں کا بابا پچاسی سال کا تھا ۔انہوں نے ساتھ حلوہ بھی پکایا تھا کہ دھوترے پوترے دیکھ کر گیا ہے، آپ تو پڑپوتوں والی ہو، سویٹ ڈش میں گاجر کا حلوہ کیسارہے گا ؟”
گاجر کے حلوے میں نمکین آنسو مل گیا ۔مگر انہیں پتہ نہیں چلا

“گاجر کے حلوے کی بجائے میٹھے چاول کرلینا، سوگی، بادام ڈال کے ۔بس روئے کوئی نہیں۔

میں کندھوں کو دباتے دباتے کمر تک آیا ۔
“شلپا سیٹھی جیسی کمرہے آپ کی ”
“اے کون اے ”
“ایک مائی ہے ۔جو آپ کی طرح مرنے کی باتیں نہیں کرتی ۔ویسے سادے پانی کی بجائے اگر کھانے کے ساتھ کوک ۔سپرائٹ رکھ لیں تو اچھا لگے گا”؟
“کھے ۔اچھا لگے گا ۔وہ تو قل والے دن رکھ لینا ۔لیکن اس دن بھی کوئی نہ روئے “انہوں نے تاکید کی
“لو ہم نے بھلا کیوں رونا ہے “اتنا کہتے میں پھوٹ پھوٹ رودیا,

پھر ایک دن وہ چلی گئیں ۔
یقین کریں سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے انہوں نے چاہا تھا ۔
خاندان بھر میں کوئی نہیں رویا ۔ہمیں دیکھ کر لوگ رو دیے ۔۔
ہم نہیں روئے ۔۔۔

لیکن اب اگر ماں جیسی بہن وصیت لکھتی ہے ۔۔تو مجھ سے اس کا جواب نہیں لکھا جاتا ۔ بلکہ پہروں رونا پڑتا ہے ۔ہم پچاس پچاس سال کے بچوں کے پاس اب اپنی مائیں تو ہیں نہیں ۔
بہت سارے پیار ۔۔بس تم ہی تو ہو ۔۔سلامت رہو ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(یہ تحریر اس وقت لکھی جب نویدہ کوثر نے 22 دسمبر 2021 کو ایک وصیت نامہ لکھا تھا)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply