دنیا میں جتنے بھی سوچنے سمجھنے غور و فکر کرنے والے لوگ ہیں ان کی زندگیوں کا بغور جائزہ لینے پر ایک بات جو بڑی شدت سے مجھے محسوس ہوتی ہے کہ ان میں سے اکثر اپنے آپ میں اتنے مضبوط اعصاب کے مالک نہیں ہوتے بلکہ کسی نا کسی حوالے سے ایک نہ سمجھ آنے والے اَن دیکھے خوف نے ان کی ذات کو جکڑا ہوا ہوتا ہے اور اس خوف پہ قابو پانے، راہ فرار کہہ لیں یا گوشئہ عافیت کی تلاش میں رہتے ہیں اور سماج میں اپنی حیثیت و مقبولیت کو ٹھیس نا پہنچے خود پہ مسلط خوف کا اظہار نہیں کر پاتے اور کسی نا کسی قسم کی addiction کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس addiction کے اثرات ان کی فکر میں نمایاں طور پہ محسوس کئے جا سکتے ہیں بلکہ کوئی فکر یا نظریہ اگر ان کی اس addiction کے خلاف جاتا ہو چاہے وہ نظریہ یا خیال کتنا ہی انسان دوست و مفید کیوں نا ہو لاشعوری طور پہ یہ اپنی تمام تر فکری توانائیاں اس نظریہ یا خیال کے خلاف بروئے کار لاتے ہوئے اسے غلط ثابت کرنے میں صرف کر دیتے ہیں اس سے چاہے ان کی اپنی ذات ہی زد پہ کیوں نا آ جائے۔
ردعمل کی نفسیات ان کی فکر کو بری طرح متاثر کرتی ہے رفتہ رفتہ غیر محسوس انداز میں انکی شخصیت میں منفی جذبات ہاوی ہونے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شخصیت پہ چھا جاتے ہیں اور ایک سوچنے سمجھنے والا انسان اس addiction کی وجہ سے اپنی عالمانہ صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا اور فکری یکسانیت کا شکار ہو جاتا ہے اس کی فکر کا محور انسانی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنے گوشئہ عافیت راہ فرار کا تحفظ رہ جاتا ہے۔
ایک آزاد ذہن کائنات پہ جب غور کرتا ہے تو وہ کائنات کو اپنی فکر کے تابع نہیں کرتا بلکہ اسے ویسے ہی دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ وہ ہے سماج و سماجی اقدار سے جڑی حقیقتوں کو اپنے جذبات و احساسات کی غلامی میں نہیں دیکھتا بلکہ انہیں ویسے ہی دیکھنے و سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جیسے وہ ہیں وہ انسانوں کو اپنی فکر و خیال کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ انہیں ان کے مقام پہ رکھ کے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور جب کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس کا مطمع نظر اپنی فکر کی ترویج نہیں بلکہ فلاح انسانیت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں