اُمید پرست۔۔عامر حسینی

صبح کے پانچ بج رہے ہیں – میں اپنے گھر کی چھت پر کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر تکیے سے ٹیک لگائے یہ سطور ضبط تحریر میں لارہا ہوں- چار سُو چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی ہیں، کیونکہ میرے گھر کے سامنے اور میرے اڑوس پڑوس میں درختوں کی بہتات ہے جہاں یہ چڑیاں رات بسر کرتی ہیں اور صبح سویرے بیدار ہوکر چہچہاتی ہیں اور پھر رزق کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں – ان کا ایک آواز ہوکر چہچہانا طبعیت کو ہشاش بشاش کرتا ہے – مایوسی کو بھگاتا ہے اور امید کو جگاتا ہے – ان کے جھنڈ کے جھنڈ تھوڑی دیر کو “پُھر پُھر” کرتے اپنے گھونسلوں سے نکلیں گے اور یہ منظر بھی انسان کو جہد مسلسل پر اکساتا ہے –
پروفیسر ڈاکٹر خالد سعید کی یاد میں یہ تحریر لکھنے بیٹھا تو مجھے چڑیوں کا صبح سویرے چہچہانے اور سُننے والوں کو امید پرست بنانے سے لگا کہ ہمارے پروفیسر ڈاکٹر خالد سعید بھی تو “چڑیا” ہی تھے، کیوں کو اُن کی باتیں، کردار، روش سب کا سب چڑیوں کی امید پرست چہچہانے کی طرح سے تھا- وہ رجائیت پرست تھے اور یونانی فلسفی ایپی کیوریس کی طرح خوش رہنے کو انسان کا بنیادی حق مانتے تھے – ہمارے ہاں “فلسفہ نشاط” کو ہمیشہ بورژوازی تعبیر کی روشنی میں دیکھا گیا، اُسے حکمران طبقات کی جاگیر سمجھا گیا اور اُس کی پرولتاری تعبیر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی – یہ ڈاکٹر خالد سعید کے سب سے پسندیدہ فلسفی، ماہر سیاسی معاشیات اور انقلاب کی سائنس جدلیاتی مادیت کے عظیم استاد کارل مارکس تھے جنھوں نے ایپی کیوریس کے “فلسفہ نشاط” کی پرولتاری تعریف اور تعبیر بیان کی اور اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے اسی فلسفی اور اسی کے فلسفہ نشاط کو موضوع تحقیق بنایا –
مجھے یاد ہے کہ فروری کا مہینہ تھا- ملتان پریس کلب میں کوئی تقریب تھی – مقررین میں ڈاکٹر خالد سعید بھی تھے اور یہ راقم بھی تھا- ڈاکٹر خالد سعید نے وہاں تقریر کے دوران ایپی کیوریس کے فلسفہ نشاط کو برسبیل تذکرہ بیان کیا اور جب تقریب ختم ہوئی تو پریس کلب کی بالائی منزل پر بنے ہال سے میں نکلا تو سامنے بالکونی کی دیوار سے ٹیک لگاکر وہ حسب معمول دو انگلیوں میں سگریٹ دبائے بظاہر کسی سوچ میں مستغرق نظر آئے – میں اُن کے استغراق میں خلل نہ ڈالنے کے خیال سے اُن سے ملاقات کی شدید تمنا کو دل میں دبائے سیڑھیوں کی طرف جانے لگا تو اُن کی پیچھے سے آواز آئی، ” حسینی تو چُھپ کر فرار نہیں ہوتے”، میں بے اختیار پلٹا تو میرے چہرے پر شاید خجالت کے اثرات دیکھ کر، کھلکھلا کر ہنسے، اور کہا، “میں تو بس یونہی تمہیں چھیڑ رہا تھا”
میں اُن کے پاس پہنچا تو انہوں نے پتلون کی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور میری طرف بڑھایا، میں نے ایک سگریٹ نکالی تو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خود لائٹر جلاکر اُسے سُلگایا – اور پھر کہنے لگے کہ آج تم نے( “فیض احمد فیض” کے نام اپنا لکھا ہوا جو خط سُنایا وہ کافی متاثر کُن تھا لیکن اُس کے آخر میں تم تھوڑے سے کلبیت پسند نظر آئے – مایوس، مایوس سے – تمہیں قاضی حسین احمد، شہباز شریف کا فیض اور جالب کے اشعار پڑھنا مایوس کیوں کرتا ہے؟
ہمارے ترقی پسند شاعروں کے طرز سخن کا دایاں بازو میں سرایت کرجانا، اُن کے فن کی پذیرائی کے دائرے پھیل جانے اور وسعت پذیر ہونے کی علامت ہے) –
جب بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں سوشل سائنسز اینڈ ہیومینٹیز کا شعبہ بنا اور اُس وقت کے وی سی ڈاکٹر نصیر الدین مرحوم نے مجھے اپنے دفتر بلاکر بطور وزیٹنگ لیکچرار برائے فلسفہ اُس شعبے سے وابستہ ہونے کی پیشکش کی تو نجانے کیوں میری چھٹی حس نے مجھے یہ باور کریا کہ ہو نہ ہو اس پیشکش کے پیچھے پروفیسر ڈاکٹر خالد سعید ہیں تو میں نے وی سی صاحب سے کہا کہ مجھے کچھ دن سوچنے کا موقعہ دیں – میں وہاں سے آٹھ کر آیا اور میں نے ڈاکٹر خالد سعید کو فون کیا، وہ یونیورسٹی ہی میں تھے اور شعبہ آئی آر میں ڈاکٹر علقمہ کے آفس میں بیٹھے تھے – میں شعبہ میں گیا تو وہ علقمہ صاحب کے دفتر سے باہر نکل کر آئے، ڈاکٹر فاروق زین سے انھوں نے گراسی پلاٹ میں کرسیاں بچھانے کا انتظام کرنے کو کہا – ڈاکٹر فاروق زین کو کہیں جانا تھا وہ چلے گئے اور ہم دونوں وہاں بیٹھے رہے – میں نے اُن سے وی سی صاحب سے ملاقات کا احوال کہا اور پھر سیدھے سبھاؤ اُن سے کہا کہ اس پیشکش کے پیچھے آپ کا ہی دماغ کام کررہا ہے نا؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ انھیں کیسے یقین ہے کہ میں فلسفہ کی تدریس کرسکتا ہوں؟ انہوں نے مجھے ہماری پہلی ملاقات کی یاد دلائی – جب میں نے ولہم رائخ کی کتاب کا اُن کا کیا ہوا ترجمہ جسے بیکن ہاؤس ملتان نے شایع کیا تھا پڑھ کر اُن سے رجوع کیا تھا- وہ ترجمہ والی کتاب مجھے پروفیسر فہیم نے تحفہ دی تھی – (آہ! کویڈ نے ہمارے اُس دانشور دوست کو بھی ہم سے چھین لیا) –
پروفیسر فہیم میرے دوست، یار غار وقار خان کے بہنوئی تھے اور وقار نے ہی اَن سے مجھے ملوایا تھا-اُن سے پہلے پہل ملاقاتیں اُن کے گھر ہوا کرتی تھیں اور پھر ملاقاتیں کینٹ میں محمداشرف کے جنرل اسٹور پر ہونے لگیں – اُن ملاقاتوں کے دوران کتب کے تبادلے ہوئے، ملتان کی علمی و ادبی شخصیات بارے انھوں نے مجھے تفصیل سے بتانا شروع کیا-وہ ڈاکٹر خالد سعید اور اُن کے ماموں پروفیسر صلاح الدین حیدر کے بہت بڑے مداح تھے – انہوں نے ہی مجھے “بالشیتا” تحفہ کی- زکریا یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری سے میں نے ولہم رائخ کی کتاب ” سائیکلولوجی آف فاشزم” اور ” لسن او لٹل مین” مستعار لیکر فوٹو کاپی کرائی تھیں – اور اُسی روز پروفیسر فہیم سے شام کے وقت ملاقات ہوئی تو اُن کتابوں کی فوٹو کاپی دیکھ کر انہوں نے مجھے پروفیسر ڈاکٹر خالد سعید کا ترجمہ ” بالشیتا” تحفہ کی – میں کتاب لیکر رخصت ہوا، ڈیرے اڈے پر خانیوال جانے والی ہائی ایس وین میں بیٹھا میرے علاوہ اُس وین میں اُس وقت فقط تین سواریاں تھیں ایک گھنٹے سے زائد سواریاں پوری ہونے کے انتظار میں وین وہیں کھڑی رہی، میں نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور وین چل کر چوک کمہارانوالہ بھی پونے گھنٹے سواریوں کی تلاش میں کھڑی رہی اور پھر سواریاں پوری کرکے وین نے ایک گھنٹا لیا خانیوال لاری اڈے پہنچنے پر اور یوں میں نے تقریباً تین گھنٹوں میں وہ ترجمہ پڑھ ڈالا- انتہائی شاندار ترجمہ تھا- ڈاکٹر خالد سعید سے غائبانہ تعارف کے بعد اُن کے ترجمے کے زریعے ہوئی اُن سے شناسائی نے اُن سے ملاقات کا شوق اور بڑھا دیا تھا – ڈاکٹر صاحب اُن دنوں سابقہ ایمرسن کالج میں پڑھارہے تھے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply