افتادگان خاک (The wretched of the Earth) -ریویو: ہمایوں احتشام

مصنف: فرانز فینن
ترجمہ: سید سجاد باقر رضوی
ریویو: ہمایوں احتشام
یہ کتاب میری پسندیدہ ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور فرانز فینن پسندیدہ مصنفین میں سے ایک۔ فینن کا شاندار کام نوآبادیاتی نظام (Colonialism) اور استعمار (Imperialism) پر ہے۔ فینن کو تاریخ کے عظیم ناقدینِ استعمار (Anti Imperialists) میں شامل کیا جاتا ہے۔
فینن کی افتادگانِ خاک نوآبادیاتی دور میں جبر (Violence) کے ہتھیار کو استعمال کرنے سے متعلق وضاحت پیش کرتی ہے۔ فینن اس بات پر مصمم یقین رکھتے ہیں کہ استعمار (Imperialism) کا خاتمہ جبر (Violence) کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ نوآبادیاتی نظام (Colonialism) کا قیام دراصل جبر کے زریعے ہی ممکن ہوتا ہے، سو اس کا اختتام بھی جبر کے زریعے ہی ہوسکتا ہے۔ نوآبادکار (Colonist)، نوآبادیات (Colonies) پر قبضہ بندوقوں اور توپ خانے کے زریعے کرتا ہے اور پھر اسے برقرار رکھنے کے لیے وہ اسی جبر کا استعمال کرتا ہے۔ نوآبادیات دو حصوں میں استعمال ہوتی ہیں، ایک نوآبادکار کی دنیا ہوتی ہے، جس میں ہر چیز اور آسائش دستیاب ہوتی ہے، جبکہ دوسری دنیا نوآبادیاتی باشندے (Colonized) کی ہوتی ہے۔ جس میں جبر، استحصال (Exploitation) اور پسماندگی (Backwardness) کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان دونوں دنیاوں کی تقسیم کو فوجی بیرکیں اور پولیس تھانے برقرار رکھتے ہیں۔ فینن نوآبادیوں کو Manichaean دنیا کے پیمانوں پر تقسیم کرتا ہے، جس میں گورا انسان روشنی جبکہ دیسی باشندہ (Colonized man) اندھیرا ہوتا ہے، جو بدی کا محور اور مرکز ہوتا ہے۔ ایک نوآبادیاتی باشندے کے اس جبر سے بھرے ماحول میں اعصاب (Muscles) ہمیشہ تنے رہتے ہیں، اس کے زہن میں آزادی کے سوا کوئی دوسرا خواب نہیں ہوتا۔ اس آزادی کے حصول کے لئے جبر اس کے زہن میں سب سے موثر طریقہ ہوتا ہے۔ فینن، مارکسی قومی انقلاب کے مارکسی نظریہ کے حامی ہیں۔ تاہم وہ مغربی بلاک اور سوویت بلاک میں شمولیت کی بجائے تیسری دنیا کو نیوٹرل رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن وہ مغربی بلاک کی شدید مخالفت کی نصیحت بھی کرتے ہیں کیونکہ مغربی بلاک کی ترقی کا موجب تیسری دنیا کا خون اور بدترین استحصال ہے۔ وہ نوآبادیاتی نظام کی ہر سطح پر مخالفت کرنے کا درس دیتے ہیں۔
فینن دعویٰ کرتے ہیں کہ قوم پرست جماعتیں (Nationalist Parties) اور نوآبادیاتی عوام ہمیشہ ایک سمت نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ جماعتیں فقط شہری بورژوازی (Urban Bourgeoisie) اور شہری یا صنعتی پرولتاریہ (Proletariat) پر مشتمل ہوتی ہیں، جو کل آبادی کا انتہائی تھوڑا سا حصہ ہوتے ہیں۔ (نوآبادیاتی دنیا صنعتی لحاظ سے پسماندہ ہوتی ہے، اس کی معیشت زراعت اور دوسرے دیہاتی پیشہ جات پر قائم ہوتی ہے۔) یہ جماعتیں نوآبادی کی وسیع محروم پرتوں کی شمولیت سے محروم ہوتی ہیں۔ شہری پرولتاریہ نوآبادیاتی نظام میں سب سے زیادہ فائدہ پانے والا طبقہ ہوتا ہے کیونکہ بعد میں یہی لوگ قومی اور گماشتہ بورژوازی کو تخلیق کرتے ہیں۔ عام حالات میں یہ طبقہ مغربی حکام کی چاکری کرتے ہیں اور مغربی طرز حیات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
نوآبادیوں میں کسان (Peasants) سب سے زیادہ استحصال زدہ (Exploited) طبقہ ہوتا ہے۔ یہ روایتی (Conservative and traditional) زندگی گزارتے ہیں اور شہروں سے دور آباد ہوتے ہیں۔ ان کے مفادات اور شہری بورژوازی کے مفادات بالکل متضاد ہوتے ہیں۔ شہری قوم پرست جماعتیں کسانوں کو نظر انداز کرتی ہیں کیونکہ بقول مارکس “شہری یا صنعتی پرولتاریہ ہی انقلاب کا ہر اول دستہ اور قائد ہوتا ہے۔” یہ قوم پرست جماعتوں کے کارکنان اور شہری پرولتاریہ سمجھتے ہیں کہ آزادی اور رد نوآبادیات (Anti Imperialist) کی جنگ شہری پرولتاریہ کے بغیر لڑے جانا ناممکن ہے۔
فینن مارکس کے برعکس لمپن پرولتاریہ (Lumpen Proletariat) کو نوابادیاتی قومی انقلاب میں بہت اہم سمجھتا ہے۔ مجرم، طوائفیں، بھکاری اور بیروزگار نوجوان لمپن پرولتاریہ کلاس کو بناتے ہیں۔ فینن لمپن پرولتاریہ کو انقلابی بندوق کی نالی قرار دیتا ہے۔ لیکن دوسری جانب فینن خبردار بھی کرتا ہے کہ اقوام کی آزادی کے بعد یہ عناصر سکون سے نہیں بیٹھتے ہیں بلکہ ان کے زریعے جبر و استحصال کی نئی شکلیں سماج میں عود آتی ہیں۔
نئے آزاد ہونے والے ممالک میں قومی بورژوازی (National Bourgeoisie) سیاسی طاقت پر قابض ہوجاتی ہے، اور وہ بالکل وہی کام کرتی ہے جو نوآبادیاتی حکمران کرتے تھے۔ اپنی قوم کی مانند ترقی پذیر زہن رکھنے کی وجہ سے یہ قومی بورژوازی حقیقی معاشیات (Economics) کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہے۔ سو، وہ محدود معیشت قائم کرکے بڑے منافع جات خود ہڑپنا (Gobble) شروع کردیتے ہیں۔
اس جدید نوآبادیاتی نظام کے زیر اثر کسان بالکل ویسے ہی استحصال کا نشانہ بنتے ہیں، جیسے وہ نوآبادکار کے زیر اختیار تھے۔ پس طبقاتی تفاوت میں شدید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا اظہار مذہبی، لسانی اور قبائلی تضادات کی شکل میں سامنے آتا ہے اور نئی قومی حکومت جبر کے کے پرانے ہتھکنڈوں کے زریعے اس شورش کو کچلنے کی حتی الامکان کوشش کرتی ہے۔ (کانگو، انگولہ، گنی بساو، آئیوری کوسٹ وغیرہ میں یہ سب دیکھا گیا ہے۔) سیاست یک پارٹی (Single Party) نظام میں تبدیل ہوتی جاتی ہے اور ایک شخص آمر (Dictator) بن کر قومی بورژوازی کے مفادات کا ہر طرح سے تحفظ کرتا ہے۔
اس مسئلے کا حل فینن سوویت ٹائپ ماڈل کو اپنانے سے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت غیر مرکزی (Decentralized) ہو اور کسان اپنے علاقوں کے خود حاکم ہوں۔ فینن مانتا ہے کہ قومی بورژوازی قومی ترقی کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہے، ان کی حکومت ختم کئے بغیر قوم ترقی نہیں کرسکتی۔
نوآبادیاتی نظام اور اس کا جبر، جس کے تدارک میں مسلح جدوجہد، قومی سطح پر عوام میں نفسیاتی مسائل پیدا کردیتی ہے۔ فینن نے اپنے الجزائر میں قیام کے دران بہت سے مقامی اور یورپیوں کا نفسیاتی مطالعہ کیا، جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ نوآبادیاتی نظام نے ان دونوں کے وجود اور شخصیت پر نہایت برے اثرات مرتب کئے۔ فینن مانتے ہیں کہ الجزائر کے لوگوں میں بڑھتے ہوئے مجرمانہ رجحان کی وجوہات میں فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سب سے زیادہ اہم ہے۔
فین ایک اور قومی ٹولے کی جانب اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد ایک براعظمی (Continental Culture) ثقافت کے نفاذ والا گروہ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جو “سیاہ فام (Negro) ” شناخت (Identity) کو پھر سے revive کرانا چاہتا ہے۔ وہ سیاہ فام ثقافت کو براعظمی سطح پر نافذ کرنے کا حامی ہوتے ہیں۔ ان کی سیاہ فام دنیا افریقہ، کیریبین جزائر، شمالی اور جنوبی امریکہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ فینن ان ثقافت پسندوں کی بڑے واضح انداز میں مخالفت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ثقافت براعظمی نہیں بلکہ قومی ہوتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی آمد سے پہلے والا کلچر معدوم ہوچکا ہے، اسے زندہ کرنا پھر سے پسماندگی میں جانے کے مترادف ہے۔ ہاں، ثقافت قومی ہونا ضروری ہے لیکن نئی ثقافت قومی آزادی کی جدوجہد میں تخلیق پانا چاہیے، یہی ثقافت ہماری آزادی کے بعد ہماری راہنما ہوگی اور ہاں، یہ ہمارے قومی شعور کی پیداوار ہوگی۔
فینن کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی ترقی کے لئے یورپ کی طرف نہیں دیکھنا ہے۔ ہم نے افریقہ میں نئے پیرس، لندن، میڈرڈ یا نیو یارک نہیں تخلیق کرنے ہیں، جو دوسری اقوام کے خون اور استحصال پر ترقی یافتہ ہوئے۔ بلکہ ہم نے آزادی کے ساتھ ترقی کا نیا راستہ بنانا ہے جو نوآبادیاتی نظام کی لعنت سے پاک ہو اور انسانی ہو۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply