• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • صوفی خواتین کا تذکرہ :ایک تعارف۔ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق مجاروی/آخری حصہ

صوفی خواتین کا تذکرہ :ایک تعارف۔ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق مجاروی/آخری حصہ

(یعنی ابو عبد الرحمن السلمیؒ کی کتاب ذکر النسوۃ المتعبدات الصوفیات پر ایک نظر)

حضرت رابعہ کا سب سے تفصیلی ذکر فرید الدین عطارؒ کی کتاب تذکرۃ الاولیا میں ملتا ہے لیکن اس میں غیر تاریخی واقعات اور بعض کمزور روایتیں ان کی طرف منسوب کردی ہیں۔ اس لیے حضرت رابعہؒ کی شخصیت تاریخی طور پر پردہ ذہول میں چلی گئی اور صوفیانہ روایت میں ان کے گرد کرامات اور مافوق العادت واقعات کا ایسا ہالہ بن گیا کہ ان کی اصل شخصیت ہی دھندلا گئی۔ ابو عبدالرحمن السلمیؒ نے زیر نظر کتاب میں حضرت رابعہؒ کے جو حالات لکھے ہیں، وہ زیادہ مستند ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ وہ بصرہ کی رہنے والی تھیں اور آل عتیک کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ سفیان ثوریؒ رحمۃ اللہ علیہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ ان کی باتوں پر بھروسا کرتے تھے ان سے نصیحت سنتے تھے اور ان سے دعا کرانے کے متمنی رہتے تھے۔ رابعہ کے علوم و حکمت کو سفیان ثوریؒ اور شعبہؒ نے روایت کیا ہے۔( ان کا تفصیلی ذکر اصل کتاب میں آ رہا ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

حضرت رابعہ بصریہؒ کے سلسلے میں ایک مشکل اور بھی ہے، وہ یہ کہ رابعہ نام کی متعدد خواتین ہیں۔ تذکرہ نگاروں نے ان خواتین کو آپس میں ملتبس کر دیا ہے۔ ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے اپنی کتاب میں رابعہ نام کی چار صوفی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ علامہ جامیؒ نے نفحات الانس میں رابعہ نام کی دو خواتین کا تذکرہ کیاہے۔ ایک رابعہ العدویہ اور دوسری رابعہ الشامیہ جو احمد بن ابی الحواریؒ کی اہلیہ تھیں ۔ امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں رابعہ العدویہ اور رابعہ بنت اسماعیل دونوں میں التباس کر دیا ہے۔(تاریخ الاسلام ،241،8-343) ابو عبد الرحمن السلمی ؒنے زیر نظر کتاب میں حضرت رابعہؒ کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ وہ آل عتیک کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ والد کا نام یا خاندان کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ ابن الجوزی نے لکھا ہے کہ ابو عبدا لرحمن السلمیؒنے لکھا ہے کہ رابعہ العدویہؒ اور رابعہ الشامیہؒ دونوں کے والد کا نام اسماعیل تھا۔(صفۃ الصفوۃ ص734) لیکن ابو عبد الرحمنؒ کی مطبوعہ کتاب میں اس طرح کی کوئی بات نہیں مل سکی ہے۔

حضرت رابعہ بصریہ پر مستقل کتابیں موجود ہیں۔ اردو، عربی اور انگریزی میں کئی تحقیقی کتابیں لکھی گئیں ۔ لیکن ان سب حضرات نے تذکرۃ الاولیا پر زیادہ بھروسہ کیا ہے اس لیے ان کا درجہ استناد کمزور ہو گیا۔قدماء میں سے ابن الجوزی نے ان کے بارے میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ، جس کاتذکرہ انھوں نے صفۃ الصفوۃ میں کیا ہے، لکھا ہے: قد اقتصرت ھا ھنا علی ھذا القدر من اخبار رابعۃ لانی قد افردت لھا کتابا جمعت فیہ کلامھا و اخبارھا (صفۃ الصفوۃص596)۔ (یہاں میں رابعہؒ کے حالات میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اس لیے کہ میںنے اس کے لیے ایک الگ کتاب لکھی ہے جس میں ان کا کلام اور ان کے احوال جمع کیے گئے ہیں۔) لیکن ابن جوزی کی کتاب موجود نہیں ہے۔اس لئے اندازہ کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے مزید کیا لکھا ہوگا۔

السلمی کی زیر نظر کتاب میں حضرت رابعہ بصریہؒ کے علاوہ متعدد مشہور صوفی خواتین کا ذکر ہے۔ ان میں ایک نام لبابہ المتعبدہ کاہے۔ وہ بھی مشہور خواتین میں سے تھیں۔ محمد بن روح ؒنے ان کی روایات نقل کی ہیں۔ بیت المقدس کے جوار میں رہائش پذیر رہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس کا ذوق پیدا کرتی ہے اور اس کا شوق اس سے انس پیدا کرتا ہے اور اس سے انس اس کی خدمت اور فرمانبرداری پر دوام عطا کرتا ہے۔ مومنۃ بنت بہلولؒ کے بارے میں ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے لکھا ہے کہ وہ عظیم عابدات میں سے تھیں۔ ان سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا کہ تم نے یہ مقامات کیسے حاصل کیے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کے احکام کی اتباع، سنت رسول کی پیروی اور مسلمانوں کے حقوق کی تعظیم اور نیک مسلمانوں کی خدمت کے ذریعے ۔

رابعہ بصریہؒ کی معاصر مریم البصریہ تھیں جو رابعہ کے بعد بھی زندہ رہیں۔ فرماتی تھیں کہ جب سے میں نے سنا ہے کہ: ’’وَفِیْ السَّمَاء رِزْقُکُمْ وَمَا تُوعَدُونَ‘‘(الذاریات:22) اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ تب سے میں نے نہ رزق کی فکر کی اورنہ اس کی طلب میں پریشان ہوئی۔ ان کے بارے میں السلمی نے لکھا ہے کہ محبت الٰہی میں ایسی سرشار تھیں، کہ ایک دفعہ ایک واعظ محبت الٰہی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اس کو سن کر ان کا پتّا پھٹ گیا اور وہ فوت ہو گئیں۔ اس عہد کی ایک صوفی خاتون شبکۃ البصریۃؒ تھیں۔ان کا تذکرہ بھی ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے اس کتاب میں کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ وہ راہِ سلوک میں اپنے بھائی کی ساتھی تھیں۔ لیکن بھائی کا نام نہیں لکھا اور بعد کے کسی تذکرہ نگار نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے ان کی شخصیت اور ان کے بھائی کامتعین کرنا مشکل ہو گیا۔ ابو سعید الاعرابیؒ نے اپنی کتاب ’’الطبقات‘‘ میں ان کا تذکرہ کیا تھا، لیکن یہ کتاب مرور ایام سے ضائع ہو گئی۔

حضرت شبکہؒ فرماتی تھیںکہ ریاضتوں کے ذریعے سے اپنے نفس کو پاک کرو، جب نفس پاک ہو جائے گا تو عبادت میں ذوق و شوق پیدا ہو جائے گا۔ رابعہ بصریہؒ کی ہم عصر اور انھی کے پایے کی ایک صوفی خاتون معاذہ بنت عبد اللہ العدویہؒ تھیں۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ روایت میں ہے کہ انھوں نے چالیس سال تک اپنی آنکھیں آسمان کی طرف نہیں اٹھائیں۔ معاذہ بہت مشہور صوفی خاتون تھیں۔ ان کا تذکرہ بہت سے تذکرہ نگاروں نے کیا ہے۔ طبقات ابن سعد میں بھی ان کا ذکر ہے اور یحیٰ بن معینؒ نے ان کو ثقہ رواۃ میں شمار کیا ہے۔ وہ مشہور تابعی صلہ بن اشیم العدویؒ کی اہلیہ تھیں۔ (سیر اعلام النبلاء 4؍509) ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے ان کو رابعہ کی ہم پلہ اوران کی دوستوں میں لکھا ہے۔ بصرہ میں صالح المری ؒکے عہد میں ایک اور بزرگ خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ جن کا نام ریحانۃ الوالھتہؒ تھا۔السلمی نے ان کے کچھ عارفانہ اشعار نقل کیے ہیں۔

یوسف بن اسباط ؒکی بیوی نُسیہ بنت سیلانؒ بھی ایک مشہور خاتون تھیں۔ ان کا ایک مقولہ سلمی نے نقل کیا ہے کہ: انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہـــ’’ اللہ تعالیٰ تم سے میرے بارے میں سوال کرے گا۔ اس لیے   مجھے سوائے حلال کے کچھ مت کھلانا اور میری وجہ سے کوئی مشتبہ چیز حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا۔‘‘ عافیہ المشتاقۃؒ قبیلہ بنی عبد القیس سے تعلق رکھتی تھیں۔ بصرہ کی رہنے والی تھیں۔ کثرت سے ذکر کرتیں۔ رات میں جاگتیں ، دن میں قبرستان میں جاتیں اور کہتیں: محبت کرنے والے اپنے محبوب سے مناجات سے نہیں تھکتے اور نہ کسی اور کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

شام کے محدث حافظ ا سمعیل بن عیاش کی والدہ جن کا ذکر اوپر آیا ہے ان کے بارے میں ان کے پوتے محمد بن اسماعیلؒ سے روایت ہے کہ میرے والد نے فرمایا کہ ان کی والدہ فرماتی تھیں کہ’’ اگر مجھ کو یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ضرور جنت میں داخل کر دے گا تب بھی میں زیادہ سے زیادہ عبادت و اطاعت کرنے کی کوشش کروں گی‘‘۔ رئیسہ بنت عمر و العدویہؒ بصرہ کی رہنے والی تھیں اور معاذہ العدویہؒ کی شاگرد تھیں۔ فرماتی تھیں کہ عمل کے درست ہونے کے لیے اس کے ساتھ تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اخلاص نیت ہو، عمل درست طریقے پر ہواورسنت کے موافق ہو۔

ام الاسود بنت زید العدویہؒ ایک عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ معاذہ العدویہ ؒنے ان کو دودھ پلایا تھا۔ حضرت معاذہؒ نے ان کو نصیحت کی کہ حرام کھا کر میرے دودھ پلانے کو خراب مت کرنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں نے اس کے بعد حلال رزق کے حصول کے لیے حتی الوسع جدو جہد کی اور اگر کبھی میں نے کوئی مشکوک نوالہ کھالیا تو پھر یا تو میرا کوئی فریضہ چھوٹ گیا یا کوئی ورد چھوٹ گیا۔ حضرت شعوانہؒ ایک عظیم صوفی اور عابدہ خاتون تھیں۔ اُبلہ(ایک شہرکانام) میں اکثر آتی تھیں، آواز بہت اچھی تھی لوگوں کو وعظ کہا کرتی تھیں۔ عابد ، زاہد اور ارباب القلوب ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ وہ بہت رونے والی اور محنت و مجاہدہ کرنے والی تھیں۔ ابو عون کہتے ہیں کہ :شعوانہؒ ایک دفعہ اتنی روئیں کہ ہم کو ان کے اندھے ہو جانے کا اندیشہ ہوا۔ ہم نے ان سے کہا کہ: ہمیں ڈر ہے کہ آپ اندھی نہ ہو جائیں تووہ اور روئیں اور کہا کہ: بخدا دنیا میں اندھا ہونا مجھے آخرت میں اندھے ہونے کے مقابلے میں بہت پسند ہے۔

بصرہ میں حدیث کے مشہور امام حماد بن زیدؒ کی بہن سعیدہ بنت زیدؒ بھی عظیم صوفی خواتین میں سے تھیں ۔ سلمی نے ان کو رابعہ کے مثل لکھا ہے۔ عثامہ بنت بلالؒمشہورصحابی حضرت ابی الدرداءؓ کی پوتی بھی بڑی عابدہ، زاہدہ اور نیک خواتین میں سے تھیں، ان کی بینائی جاتی رہی۔ لیکن وہ اس پر صابر و شاکر رہیں۔ امام محمد بن سیرینؒ کی بہن حفصہؒ کا تذکرہ بھی اپنے عہد کی بڑی عابدہ اور زاہدہ خواتین میں کیا جاتا ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں اور ابن الجوزی نے صفۃ الصفوۃ میںان کا تذکرہ کیاہے، سلمی نے بھی ان کا ایک مقولہ نقل کیا ہے۔ رابعہ بنت اسماعیلؒ ایک بڑے امیر گھرانے کی خاتون تھیں۔ ان کی شادی مشہور صوفی احمد بن ابی الحواریؒ سے ہوئی۔ انھوں نے اپنی ساری دولت اپنے شوہر پر قربان کر دی۔اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر فرماتی تھیں: کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی تھی کہ میرا مال آپ جیسا کوئی آدمی استعمال کرے۔ رابعہ ؒنے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں برف کو دیکھتی ہوں تو اعمال ناموں کا تقسیم ہونا یاد آتا ہے۔ جب ٹڈیوں کو دیکھتی ہوں تو میدان حشر یاد آتا ہے اور مؤذن کی اذان سنتی ہوں تو قیامت کی منادی یاد آتی ہے۔

فاطمہ نیشاپوریہؒ بھی اپنے عہد کی عظیم صوفی خواتین میں تھیں۔ ابو یزید بسطامیؒ جیسے عظیم صوفی نے فاطمہ کی تعریف کی ہے۔ فرماتے تھے میں نے اپنی زندگی میں بس ایک مرد کو دیکھا اور ایک عورت کو،اس پائے  کا کسی اور کو نہیں دیکھا۔ وہ عورت فاطمہ نیشاپوریؒ تھیں۔ ذوالنون مصریؒ فرماتے تھے کہ فاطمہؒ اللہ کے ولیوں میں سے ایک ولیہ ہیں۔ سلمی نے لکھا ہے کہ اپنے عہد میں فاطمہ سے زیادہ معزز اور بزرگ کوئی خاتون نہیں تھی۔ابن الجوزی نے النجوم الزاھرہ میں صفۃ الصفوۃ میں بھی ان کا تذکرہ کیا ہے اور صفۃ الصفوۃ میں بھی ۔ شام میں ایک عظیم صوفی خاتون ام ہارون الدمشقیہؒ بھی تھیں۔ ابو سلیمان دارانی ؒان کے بارے میں کہتے تھے کہ میں نے شام میں ام ھارونؒ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ احمد بن الحواریؒ ان سے وعظ و نصیحت سنتے تھے۔

بصرہ کی ایک عارفہ بحریہ ؒبھی تھیں۔ انھوں نے شقیق بلخیؒ کی خدمت میں رہ کر تربیت حاصل کی۔ حضرت شقیق بلخیؒ بھی ان کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ سلمیؒ نے بصرہ کی ایک بڑھیا کے حوالے سے لکھا ہے کہ بحریہ فرماتی تھیں کہ جب دل شہوات کو چھوڑ دیتا ہے تو پھر اس کو علم سے انسیت ہو جاتی ہے، وہ اس کا اتباع کرتا ہے اور جو علم اسے حاصل ہوتا ہے اس کو برداشت کرنے کی اس کے اندر صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ابو حمزہ،ؒ ابو الحسین نوریؒ اور جنید بغدادیؒ کے حالات میں ایک خاتون زیتونہؒ کا نام آتا ہے جو در اصل ان تینوں بزرگوں کی خادمہ تھیں۔ عام طور پر مؤرخین نے ان کا تذکرہ محض ایک خادمہ کی حیثیت سے کیا ہے۔ سلمیؒ نے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں جو تفصیلات دی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی بڑی صوفی خاتون تھیں اور زیتونہ کے نام سے مشہور تھیں ان کا اصل نام فاطمہ تھا۔ سلمی نے ان کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جو در اصل ابو الحسین نوریؒ سے متعلق ہے اور اس کا تذکرہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں بھی کیا ہے۔

صفراء الرازیۃؒ نام کی ایک عابدہ خاتون کا تذکرہ السلمی نے کیا ہے۔ در اصل ابو حفص نیشاپوریؒ نے اپنے رے کے دوران قیام اس خاتون سے نکاح کیا تھا۔ جب رے سے جانے کا ارادہ کیا تو اس خاتون سے کہا کہ: چونکہ میں رے سے جا رہا ہوں اور مجھے نہیں معلوم کب واپس آؤں گا اس لیے تم مجھ سے طلاق لے لو۔ اس خاتون نے اس کو پسند کیا کہ ابو حفص کے نکاح میں رہے اور چلتے ہوئے کچھ نصیحتیں ان سے سنیں۔ ان میں سے کچھ کا تذکرہ سلمی نے کیا ہے۔ احمد بن خضرویہؒ کی اہلیہ ام علیؒ بھی بڑی عابدہ زاہدہ اور عارفہ خاتون تھیں۔ خود بہت بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ا لسلمی ؒنے لکھا ہے کہ :کانت من بنات الرؤسا والاجلہ، ابو حفص نیشا پوریؒ اور ابو یزید بسطامی ؒنے ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ ابو یزید بسطامی نےؒ کہا کہ جو کوئی راہ تصوف اختیار کرے وہ ام علی کی طرح کرے۔ سلمی نے ان کے بعض اقوال بھی نقل کیے ہیں۔

مشہور صوفی ابو عثمان الحیری ؒالنیشاپوری کی بیٹی عائشہؒ بھی عابدہ و زاہدہ خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ا لسلمیؒ نے لکھا ہے کہ وہ ابو عثمانؒ کی اولادوں میں سب سے زیادہ عابد ہ و زاہدہ تھیں۔ا لسلمیؒ نے ان کی صاحبزادی ام احمد سے ملاقات کی اور ان کے بارے میں پوچھا، انھوں نے اپنی والدہ کے متعدد اقوال سنائے، ان میں ایک یہ ہے کہ میری والدہ نے مجھے نصیحت کی کہ: ’’بیٹی جو فنا ہونے والا ہے اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں اور جو چیز جانے والی ہے اس پر غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ خوش رہنے کے لیے اللہ کافی ہے اور اصل غم کی بات یہ ہے کہ تم اللہ کی معافی کے فیضان سے محروم ہو جاؤ‘‘۔ ابو علی الروذباری ؒکی اہلیہ فاطمہ ام الیمنؒ بھی عظیم زاہدہ خاتون تھیں ۔ سلمی ؒنے لکھا ہے کہ وہ بڑی بزرگ خاتون تھیں،بڑی صاحب فہم تھیں اور بہترین گفتگو کرتی تھیں۔

فاطمہ دمشقیہؒ بھی ایک عظیم صوفی خاتون تھیں۔سلمی کے بقول وہ صوفیہ پر تنقید کرتی رہتی تھیں، جب ابو الحسین المالکیؒ دمشق آئے تو انھوں نے جامع دمشق میں تقریر کی اور اچھی تقریر کی۔ اس کے بعد فاطمہؒ ان کی مجلس میں آئیں اور ان سے کہا اے ابوالحسن! آپ نے بلا شبہ اچھی تقریر کی اور آپ اچھی تقریر کرتے ہیں۔ لیکن یہ بتائیے کہ کیا آپ اچھی طرح خاموش بھی رہ سکتے ہیں تو ابو الحسن لاجواب ہو گئے۔ اور پھر کبھی نہیں بولے۔ اوپر کے صفحات میں ابو عبدالرحمن السلمیؒ کی کتاب کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے کہ انہوں نے خواتین کے بارے میں کس طرح کی تفصیلات دی ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہو تا ہے کہ انہوں نے خواتین کا تذکرہ جمع کرنے میں کتنی محنت کی اور اپنے عہد نیز متقدمین میں سے ایک خاصی تعداد میں صوفی خواتین کے حالات جمع کر دیے ، صرف بصرہ کوفہ اور شام و عراق ہی نہیں بلکہ ماوراء النہر،فرغانہ اور داغستان کے دور دراز علاقوں میں جو خواتین اپنے زہد وللہیت اور تصوف و سلوک کے لئے مشہور تھیں ان کے حالات بھی جمع کر دیے ہیں۔

پہلی قسط کا لنکhttps://www.mukaalma.com/14791

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply