“والعصر” – بچپن کی عیدوں کے نام /تحریر-محمد وقاص رشید

آخری افطاری کی تو دل کیا کہ چاند رات کی وہ چاندنی ہر طرف پھیل جائے جو کبھی آخری روزے کی افطاری کے فوراً بعد جھلملانے لگتی تھی۔ وہ مسرت دل میں بھر جائے جسے یاد کر کے آنکھیں بھر جاتی ہیں۔ دل کیا جہاں کپڑے استری کر کے لٹکائے گئے وہاں بار بار جاؤں، اگلے دن یعنی عید کے دن ان کپڑوں اور جوتوں کو پہننے کی جوشی چاند رات ہی کو محسوس کر کے ایک سرشاری من میں سمو لوں۔
رات بستر پر لیٹا توآنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ جی کیا کہ وہ بے قراری لوٹ آئے… چاند رات کی نیند کی وہ بے قراری… بستر پر آکر دل چاہے کہ بس ایک لمحے کوانکھیں بند ہوں اور ادھر سے ماں کی آواز آنے لگے۔۔ آٹھ جاؤ بچو عید کی نماز سے دیر ہو جائے گی۔ پھر آنکھ کھلے تو سامنے کوارٹر نمبر 54/A کا وہ چھوٹا سا مگر کائنات کا وسیع ترین صحن دکھائی دے۔ اب جنت الفردوس میں عیدیں منانے والے ابوجان پھر سے سامنے دکھائی دیں۔ جو موجود تھے تو باہر ہر پل دکھائی دیتے تھے چلے گئے تو من میں ہر آن نظر آتے ہیں۔ انکی یادوں نے کیا لوری سنائی کہ چاند رات تمام ہوئی۔
صبح آنکھ کھلی۔ ریلوے کالونی سے نکلی عمر کی ریل مسافر کو ایک سیمنٹ فیکٹری کے کوارٹر میں لے آئی۔ سوچا تیزی سے بسترسے اٹھوں سب سے پہلے نئے کپڑوں اور جوتوں کو سلام کروں مگر وہ دھیرج تھی کہ کپڑے جوتے اس سرد مہری پر جیسے نالاں نظر آ رہے ہوں۔

نہا کر کپڑے پہنے تو سامنے رکھیں سویوں میں پستے بادام کاجو کشمش اور کھویا سب کچھ تھا مگروہ نہیں جسے میں نے کھویا۔ گیلی لکڑیوں سے اٹھتے دھویں کی باس… اس دھویں سے دو آنکھوں میں تیرتی بوندوں کی تراوت اور وہ لکڑیوں کو یوں ماں کا پھونکیں مارنا کہ سویوں میں خوشبو آئے۔ شکر ہے کہ ماں سامنے تھی اپنی آنکھوں کی روشنی اور پھونکوں کی توانائی میرے بچپن کو دے کر۔ آدم سے لے کر آخری آدمی تک سارا قضیہ جنت کا ہے…خدا نے ماں کے پیروں کے نیچے ہی رکھ دی۔

اسکے بعد جی میں آیا کہ جیب میں موجود سارے پیسے کوئی لے لے اسکے بدلے بس وہ پانچ روپے کے بھورے سے اور دس روپے کے سبز سے بڑے والے دو تین نوٹ دے دے عیدی کی مد میں جسے مانگنا ایک جرم ہوتا تھا مگر ملنا ایک ایسی خوشی کہ زندگی میں کوئی بڑی سے بڑی رقم انعام تنخواہ وہ سرشاری نہ دے پائی۔ بے نیازی سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ عیدی کی مد میں جیبوں میں اڑسنے والی پود پانچ روپے دس روپے کے ساتھ اکٹھی ہونے والی پچاس روپے کی خطیر رقم کا سرور کیا جانے۔

پچاس روپے۔۔ ملکوال میرے خواب نگر کا وہ بازار۔ وہ حافظ سوڈا کی بوتل ، وہ دلبہار فالودے کا پیالہ، وہ ٹھیلے سے چنا چارٹ وہ پولکا آئس کریم اور آخر پر محترم متین خان صاحب مرحوم کی دکان سے سارے منہ کو بھر دینے والا میٹھا پان… اس یادگار مینیو کے بعد بھی جیب میں پانچ یا دس روپے بچ جانے پر اپنی معاشی صلاحیتوں پر مان تم کیا جانو اے نسلِ نو۔۔ تم واقعی کیا جانو؟

دن کے کھانے کا وقت ہوا تو ایک بار پھر ایک کونے میں لکڑی کے چولہے پر پکتا کوئی ایک سالن اور توے کو ایک طرف ہٹا کر بر اہِ راست آگ کے شعلوں پر سینکی گئی دیسی آٹے کی روٹیاں یاد آئیں۔ امی کی عید یہی ہوتی تھی۔۔۔ وقت کے دامن میں سلگتی حسرتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یادوں کے البم میں ماں کی عید کے دن ہی کی سجنے سنورنے کی تصویر ہوتی۔

کھانے کے بعد آنکھوں پر نیند سوار ہوئی تو ایک بار پھر وہ یاد آئے ٌ وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے ٌ۔۔ تب ہم سوچتے تھے کہ یہ بڑے کتنے بور لوگ ہیں عید کے دن سوتے ہیں۔ بند ہوتی آنکھوں سے میں نے سوچا کہ زندگی بھی کیا عجیب سفر ہے۔ مسافت کےآغاز میں اگلے پڑاؤ کی چاہت اور منزل کی طرف گامزن ہر اگلے پڑاؤ پر پچھلے راستے کی حسرت آمیز یادیں۔ آخری تجزیے میں زندگی انہی یادوں کو اکٹھا کرنے کی مہم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہی نامہءِاعمال۔

شام کو آٹھ کرچائے پی اور گھر سے بچوں کے ساتھ گھومنے نکلا تو آنکھیں یوں ششدر تھیں کہ جیسے کوئی اجنبی دیس میں آ نکلا ہوں۔ نہ کوئی ریلوے کیبن، نہ کوئی خواب نگر کی یادگار نہر نہ وہ دریا جہلم کا کنارہ جب دامنِ خضرپارک نہیں ہوتا تھا۔ اور نہ ہی ہر یادوں کی ریل کا وہ آخری ریلوے اسٹیشن… ایک وہ خواب نگر اور اس میں بستے لوگ ہی تو شناسا ہیں باقی تو انجان نا شناسا اجنبی۔ دل کیا کہ بچپن کے اس ایک ایک سنگی ساتھی سے جا کر عید ملوں کہ جسکی دید ہی عید تھی۔

اور یوں عید کا دن بیت گیا۔ رات بستر پر میں لیٹا تو اس عید کا آخری لمحہ میرے کان میں آکر سرگوشی کرتے ہوئے کہنے لگا اچھا چلتا ہوں مگر ایک بات یاد رکھ اے گمنام لکھاری…جس نے مجھے پیدا کیا اس نے میری قسم کھائی “والعصر” اور تیرے گھاٹے کی۔ ہاں میری قسم یہ تیرا گھاٹا منفعت میں بدل سکتا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ آج تو تمام دن مجھے یعنی بیتے ہوئے وقت کو یاد کرتا رہا اور اپنے گھاٹے کے بارے میں سوچتا رہا میں بھیس بدل کر تیرے سامنے موجود تھا۔ تیرا بچپن بن کر تیرے بچوں کے روپ میں اور تیرے بابا کی ادھیڑ عمری کی صورت تیرے بالوں کی سپیدی میں۔ اسی الٹ پھیر کو سمجھنے والے بدلتے وقت کے مطابق اپنی ذات سے نکل کرنئے کردار میں ڈھل کر اپنا آپ کردار کے حوالے کر دیتے ہیں اور فائدہ مند بن جاتے ہیں۔ اپنی عیدیں دوسروں کی خوشیوں میں تلاش کرتے ہیں اور اس مدوجزر کو نہ سمجھنے والے اپنی ذات کے اسیر نئے کردار کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے انکا حاصل واقعی لا حاصل ہے۔ باقی تو مجھے شاعرانہ انداز میں یاد کرتا رہا کر کہ قلم چلتا رہے… چلتا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

وقت کی یہ بات سن کر میں مسکرا دیا اسے میں نے اسی سرگوشی کے انداز میں کہا رک تجھے عید مبارک کہنا ہے۔ کہنے لگا پھر وہی بات، میں کبھی رُکا۔۔
خدا حافظ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply