جبل القارہ ، الحساء کے عجیب پہاڑ Land of Civilization۔۔منصور ندیم

دمام سے ڈرائیونگ شروع ہو تو الاحساء شہر (مشرقی سعودی عرب) میں جبل القارہ تک کا راستہ قریب ۱۷۵ کلو میٹر رہا، جبل القارہ جسے Land of Civilization بھی کہا جاتا ہے، ماضی میں اس مقام کو “جبل الشبعان” بھی کہا جاتا رہا ہے۔ جبل القارہ کے بطن میں گاؤں آباد رہے اسی لئے اسے جبل القارہ کہا جاتا ہے، یہاں پہاڑ “التویثیر” اور “القارۃ” نامی دو قدیم گاؤں کے وسط میں موجود ہے، جبل القارۃ جس جگہ اصلا واقع ہے یہ الاحسا کے نخلستان کے مشرق میں پڑتا ہے۔ اور الاحسا کے یہ نخلستان اتنے بڑے خطے میں ایک وسیع اور قدیم نخلستان ہے، ہمیں شہر سے آدھا گھنٹہ اس نخلستان میں موجود راستوں سے القارہ تک پہنچنا پڑا، یہ نخلستان بھی اتنے خوبصورت ہیں، اونچے اونچے کھجور کے درختوں پر پھیلا ایک لامتناہی سلسلہ، جسے سنہء ۲۰۱۸ میں یونیسکو UNESCO نے عالمی ورثے World Heritage میں شامل کرلیا تھا۔

جبل القارہ کا راستہ نخلستان سے ہوکر گزرتا ہے، اور جہاں سے جبل القارہ شروع ہوتا ہے وہاں سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جبل القارہ قدرتی سحر آفریں مناظر کی علامت ہے، عجیب وغریب اور ہیبت ناک ہیئت کےیہ سنگلاخ پہاڑ سعودی عرب کے ان سیاحتی مقامات میں سے ایک ہیں، جنہیں حقیقتاً  Archeology آثار قدیمہ کو ابھی بہت کچھ دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ جبل القارہ کا مجموعی حصہ ۱۴ مربع کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہے اور اس کی بلند ترین چوٹی کی اونچائی ۲۰۰ میٹر تک ہے۔ پہاڑ میں کئی غار اور شگاف ہیں جو اندر سے کافی کشادہ ہیں۔ دور سے انہیں دیکھنے سے محسوس ہوتا کہ اس کی چٹانیں پرندوں اور جانوروں کی شکل میں تراشی گئی ہیں۔ کئی چٹانیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ان غاروں اور شگافوں کے اندر موسم سرما میں آپ کو گرمی کا احساس اور موسم گرما میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جیسے سرد ہوائیں چل رہی ہوں۔

 

گیٹ سے پہلے بھی پارکنگ ہے، مزید جبل القارہ کے مرکزی دروازوں پر Land of Civilization لکھا نظر آتا ہے، دو مرکزی گیٹ ہیں جن کے اندر اچھا خاصا حصہ پارکنگ کا موجود ہے۔ یہاں پر ریستوران، گائیڈ سروس بھی موجود ہے۔ عید کے دن کی وجہ سے یہاں بیت زیادہ لوگ موجود تھے، مگر عام دنوں میں بھی اسے دیکھنے والے سیاحوں کی تعداد خاصی ہوتی ہے، یہاں اوپر پہاڑ کی چوٹی پر چٹانیں اس طرح بنی ہیں جیسے تین سر ہیں۔ ایک سر جنوب کی سمت ہے جو دیکھنے سے کسی خاتون کی شکل لگتی ہے۔ دوسرا شمال کی سمت ہے جو مرد کا سر معلوم ہوتا ہے جبکہ تیسرا شیر کا سر دکھائی دیتا ہے۔ یہیں پہاڑ کی بلندی پر ایک قدیم تاریخی قلعہ بھی ہے جس کے درمیان میٹھے پانی کا چشمے کے آثار موجود ہیں، جو اس وقت یہاں پانی کی ضرورت پوری کرتا تھا، مگر اس قلعے کی اصل تعمیر کا ابھی تک صحیح علم نہیں ہے مگر یہاں تاریخی حوالے کے مطابق یہ قلعہ قبل از اسلام سے پہلے یہاں کے کسی حکمران نے تعمیر کیا تھا جس کا تعلق کندہ قبیلے سے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں سے ۱۸ کلو میٹر کے فاصلے پر ’جامع مسجد جواثا‘ جو سنہ سات ہجری کو قبیلہ بنو عبد قیس نے رسول ﷲﷺ کی آمد کی خبر سن کر مدینہ وفد بھیج کر بعد از قبول اسلام یہاں تعمیر کی رہی، کئی لوگ اس مسجد کی وجہ شہرت نہیں جانتے کہ جواثا مسجد کی اصل وجہ شہرت اس کا اصل شرف اس میں دوسرے جمعہ کی ادائیگی ہے۔ یعنی اسلام میں جامعہ کی فرضیت کے بعد مدینہ منورہ کے بعد دوسرا جمعہ یہاں پڑھایا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ مسجد آج بھی سعودی عرب کی تاریخی سیاحتی اور ثقافتی پہچان بنی ہوئی ہے۔ جبل القارہ کے اس علاقہ میں قدیم زمانے میں بازار لگتا تھا جسے ’سوق المشقر‘ کہا جاتا تھا۔ اب بھی ہر اتوار یہاں چھوٹا موٹا بازار لگتا ہے جو اس تاریخی بازار کی روایتی باقیات ہیں۔ جبل القارہ اور جواثا مسجد کے علاوہ الحساء میں آثار قدیمہ کی ایک علامت ابراہیم محل، القیصریہ بازار جس کا شمار تاریخی مشہور ترین بازاروں میں ہوتا ہے، قصر صاعود، سراج محل، کے علاوہ الحساء کا کھجوروں کا نخلستان بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply