دربارِ نبویﷺ۔۔سکندر پاشا

آہستہ قدم نیچ نگاہ پست صدا ہو
خوابیدہ یہاں روحِ رسولِ عربی ہے

شاید اسی کو اندھی عقیدت کہتے ہیں، بے شرموں کو شرم بھی نہیں آئی اور مسجد نبوی میں اپنے سیاسی مخالف لوگوں پر نعرے بازی کر رہے ہیں۔

ایک وقت وہ تھا جب خان نے جوتے اتارے تھے تو ہم نے عشق سے سرشار سمجھا اور خوب داد دی تھی اور دل خوش ہوا تھا اور ایک وقت یہ بھی تھا کہ جب خان صاحب عمرہ کرنے گئے تھے تو کچھ لوگوں نے “گو نیازی گو” کی آوازیں کَسی  تھیں  تو ہم نے اس کی بھی مخالفت کی تھی اور انہی  دنوں کچھ ناہنجاروں نے مدینہ منورہ میں خان کے حق میں نعرے بھی لگائے تھے ، جس کی مذمت بھی ہم نے کی تھی اور آج پھر ایک وقت آیا کہ سیاسی نعرہ بازیاں اب گویا ہمارے کلچر کا حصہ بنتی نظر آرہی ہیں اور ہم اخلاقی پستی کے اس مقام پر پہنچے ہیں کہ اگر کسی کو کسی قوم کی اخلاقی پستی کی مثال دی گئی تو ضرور ہماری مثال دی جائیگی۔

مجھے دکھ ہے کہ یہ خبیث الفطرت لوگ ہماری قوم میں سے ہیں، کہیں ان کے اس قبیح فعل کی وجہ سے خدا ہم پر مجموعی عذاب نازل نہ کردے۔ والی ء ریاست مدینہ کے دعویدا ر اور ان کے مذہبی اداکار اب اس قوم کو کیسے اخلاق کا سبق دے سکتے ہیں جنہوں نے ریاست مدینہ کے خواب دکھا کر ایک جاہل قوم تیار کی اور وہی دربار نبوی ﷺ پر اپنے گرے ہوئے اخلاق کا مظاہرہ کر گئے؟ لعنت کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اس واقعہ کو سیاسی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس عمل کی حمایت کرنے والے اصیل گھٹیا ہیں کہ عشق ِ عمران میں حد سے گزر گئے اور ان میں آداب مصطفوی نہ رہے ، اور دعویدار ریاستِ  مدینہ کے ہیں۔

سیاست اپنی جگہ اور فریق مخالف اپنی جگہ لیکن مقدسات کی توہین کوئی بھی ذی شعور آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر آپ اس کے لئے کوئی تاویل گھڑتے ہیں تو اپنے ایمان اور اعمال کی فکر کیجیے۔ جب تک آپ سیاہ کو سفید کہیں گے اس دن تک آپ کی  عقل میں باتیں   نہیں آئیں گی۔

اللہ تعالیٰ  مومنین  سے   ارشاد فرما رہے ہیں
ترجمہ: اے ایمان والو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ نبی سے اس طرح اونچی آواز سے بات کرو جیسے تم بعض ،بعض سے اونچی آواز سے بات کرتے ہو، ایسا نہ کہ تمہارے اعمال  ضبط ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔

معالم التنزیل میں ہے کہ اس موقع  پر شروع سورت سے لے کر اجر عظیم (اس کے بعد والی آیت) تک نازل ہوگئیں، جن میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے آگے بڑھنے کی اور آپ کی خدمت میں رہتے ہوئے آوازیں بلند کرنے کی ممانعت فرما دی اور یہ حکم بھی فرما دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باتیں کرو تو ادب کا خیال رکھو اور اس طرح اونچی آواز سے بات نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ایسا نہ ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر تمہاری آواز بلند ہوجائے اور اس کی وجہ سے تمہارے اعمال ضبط ہوجائیں یعنی تمہاری نیکیاں ختم کردی جائیں اور تمہیں اس کا پتہ بھی نہ ہو۔

صحیح بخاری میں ہے کہ آیات مذکورہ نازل ہونے کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اتنا آہستہ بولتے تھے کہ  دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ (صحیح بخاری ص ٧١٨)

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت بن قیس صحابی (رضی اللہ عنہ) کو اپنی مجلس سے غیر حاضر پایا تو آپ کو اس کا احساس ہوا، ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس کا پتہ چلاتا ہوں وہ حضرت ثابت (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے اور انہیں اس حال میں دیکھا کہ اپنے گھر میں سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں، دریافت کیا کہ آپ کو کیا ہوا ؟ جواب دیا کہ میری آواز بلند ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر اپنی آواز بلند کرچکا ہوں (جو اپنی عادت کے طور پر تھی) لہٰذا میں اہل نار میں سے ہوں اس شخص نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جا کر بتادی آپ نے فرمایا کہ جاؤ انہیں جا کر بتادو کہ اہل نار میں سے نہیں ہیں بلکہ اہل جنت میں سے ہیں۔ (صحیح بخاری، ص ٥١٠، ٧١٨)

حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) اور حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ آیت بالا نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس طرح پست آواز سے بات کرتے تھے کہ جیسے کوئی شخص راز داری کی باتیں کر رہا ہو۔

یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی۔
ترجمہ: بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آواز کو پست کرتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے خالص کردیا ہے ان کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے۔

حضرت صائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟؟ صحيح البخاري، الرقم : 470)۔

اس کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں جن میں صحابہ کرام کے  حد درجہ احتیاط کرنے کے واقعات موجود ہیں، علما ، اولیا  اور صلحاء کے واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں کہ ایسے مقدس مقامات پر وہ کس درجہ احتیاط کیا کرتے تھے۔

جس جس نے بھی حرم پاک اور مسجد نبوی میں کسی بھی سیاسی لیڈر کے خلاف کسی بھی قسم کے نعرے لگائے ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہے اور کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، ہمیں اس کی بھرپور مذمت کرنا ہوگی ورنہ اس کا وبال عذاب کی صورت میں مجموعی طور پر ہم سب پر نازل ہوگا۔ خدا ہم سب پر رحم فرمائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے زائر بیت نبوی یاد رہے یہ
بے قاعدہ یہ جنبش لب بے ادبی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply