بدن (3) ۔ کوڈ/وہاراامباکر

خلیے کا دل نیوکلئیس ہے۔ اس میں خلیے کا ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ اور اپنے سائز کے حساب سے یہ ایک انتہائی کم جگہ پر قید ہے۔ جس وجہ سے یہ نیوکلئیس میں سما جاتا ہے، وہ یہ کہ یہ بہت ہی باریک ہے۔ اگر ڈی این اے کے بیس ارب دھاگوں کو ساتھ ساتھ رکھا جائے تو یہ انسانی بال کی موٹائی کے برابر ہوں گے۔ ہر خلیے میں ڈی ان اے کی دو کاپیاں موجود ہیں اور یہ وجہ ہے کہ جب اس کو کھول کر اکٹھا رکھا جائے تو یہ پلوٹو تک پہنچا دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈی این اے کی موجودگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے۔ مزید ڈی این اے تخلیق کرنا۔ آپ نے بائیولوجی کی کتاب میں پڑھا ہی ہو گا کہ یہ دو دھاگوں سے ملکر بنتا ہے جو آپس میں ڈنڈوں سے جڑ کر چکر دار سیڑھی بناتی ہیں جسی double helix کہا جاتا ہے۔ ڈی این اے میں محض آپ کو بنانے کی ہدایات ہیں۔ یہ ٹکڑوں میں بٹا ہے جو کروموزوم ہیں اور اس کا انفرادی یونٹ جین کہلاتا ہے۔ تمام جین ملکر آپ کا جینوم بنتا ہے۔
ڈی این اے انتہائی مستحکم ہے۔ یہ دسیوں ہزار سال باقی رہ جاتا ہے۔ اور یہ ممکن کرتا ہے کہ ہم دسیوں ہزار سال پہلے کی اینتھروپولوجی پڑھ سکیں۔ آپ کی ملکیت میں کوئی بھی شے ۔۔ نہ کوئی خط، نہ زیور اور نہ ہی کوئی قیمتی وراثت ۔۔۔ آج سے ایک ہزار سال بھی موجود نہ ہو گی لیکن آپ کا ڈی این اے کہیں نہ کہیں باقی ہو گا اور ڈھونڈنے والے کو مل سکے گا۔
ڈی این اے بہت ہی غیرمعمولی پرفیکشن کے ساتھ اپنی انفارمیشن آگے بڑھاتا ہے۔ کاپی ہوتے وقت صرف ایک ارب میں سے ایک آدھ غلطی ہی ہوتی ہے۔ یہ ہمارے کسی بھی صنعتی پراسس سے زیادہ پرفیکٹ ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے خلیے اس قدر زیادہ بار تقسیم ہوتے ہیں کہ ایک تقسیم کے وقت تقریباً تین غلطیاں ہوتی ہیں۔ یہ میوٹیشن ہیں۔ اور زیادہ تر میوٹیشن کو جسم نظرانداز کر جاتا ہے لیکن کبھی کبھار کوئی ایسی ہوتی ہے جس کے طویل مدتی اثر ہوتے ہیں۔ یہ ارتقا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینوم کے اجزا کا ایک ہی مقصد ہے۔ آپ کے وجود کو قائم رکھنا۔ آپ کے جین بہت ہی قدیم انفارمیشن رکھتے ہیں۔ آپ فوت ہو جائیں گے اور بھلا دئے جائیں گے لیکن یہ جین چلتے رہیں گے جب تک کہ آپ کی اولاد آگے سے آگے بڑھتی رہے گی۔ اور آپ کی اپنی وراثت کی یہ لائن پچھلے تین ارب سال سے بغیر رکے چلتی رہی ہے، جس نے آپ کا وجود ممکن کیا ہے۔ جینیاتی مادے کا یہ تسلسل برقرار رہا ہے۔ آپ کے موجود ہونے کے لئے آپ کے اجداد کو اپنے جین آگے سے آگے منتقل کرتے رہنے تھے۔ اور کسی ایک کی بھی ناکامی کا مطلب ہوتا کہ یہ ختم ہو جاتا۔ لیکن یہ حیرت انگیز کامیابی کی زنجیر ہے جس کی وجہ سے آپ یہاں پر ہیں۔
جین کرتی کیا ہیں؟ یہ پروٹین بنانے کی ترکیب مہیا کرتی ہیں۔ جسم میں سب سے مفید شے پروٹین ہیں۔ کچھ کیمیائی ری ایکشن کی رفتار تیز کرتی ہیں۔ ان کو انزائم کہا جاتا ہے۔ کچھ کیمیائی پیغامات کی ترسیل کرتی ہیں۔ ان کو ہارمون کہا جاتا ہے۔ کچھ جسم کو ضرر پہنچانے والے پیتھوجن پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ ان کو اینٹی باڈی کہا جاتا ہے۔
سب سے بڑی پروٹین ٹائٹن ہے جس کا کام پٹھوں کی لچک کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس کا کیمیائی نام 189,819 حروف پر مشتمل ہے۔ یہ انگریزی کی لغت کا سب سے بڑا لفظ ہوتا لیکن کیمیائی نام لغت میں قبول نہیں کئے جاتے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ہم میں کتنی قسم کے پروٹین ہیں لیکن یہ تخمینہ چند لاکھ سے لے کر دس لاکھ سے زیادہ تک کا ہے۔
جینیات کا تناقض یہہ ہے کہ ہم سب بہت مختلف ہیں لیکن جینیاتی لحاظ سے ایک ہی جیسے ہیں۔ تمام انسان 99.9 فیصد جین شئیر کرتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی دو شخص ایک سے نہیں۔ میرے اور آپ کے ڈی این اے میں تیس سے چالس لاکھ جگہوں پر فرق ہوں گے جو کہ کل ڈی این اے کا بہت ہی تھوڑا سا حصہ ہے۔ لیکن یہ ہم میں پائے جانے والے بہت سے فرق کی وجہ ہے۔ آپ میں سو کے قریب ذاتی میوٹیشن ہوں گی۔ ایسی جینیاتی ہدایات کے حصے جو آپ کے والدین کی طرف سے نہیں آئے بلکہ خالصتاً آپ کے ہی ہیں۔
یہ سب کچھ کیسے کام کرتا ہے؟ اس کی تفصیلات میں سے بہت کچھ نامعلوم ہے۔ انسانی جینوم کے کوڈ کا صرف دو فیصد پروٹین بنانے کے کام آتا ہے۔ یہ حصہ تو بلاشبہ کارآمد ہے۔ باقی سب کچھ کیا کرتا ہے؟ اس کا بہت سا حصہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ نہ کرتا ہو۔ کچھ کی کوئی تک بھی نہیں بنتی۔ ایک چھوٹا سیکوئنس Alu ہے۔ یہ جینوم میں دس لاکھ بار سے زیادہ دہرایا گیا ہے۔ کئی بار اہم جگہوں کے درمیان میں۔ یہ بالکل بے کار لگتا ہے لیکن ہمارے جینیاتی مواد کا دس فیصد حصہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ معلوم نہیں۔ اس تمام اضافی ڈی این اے (ڈارک ڈی این اے) کا کچھ حصہ تو جین ریگولیٹ کرتا ہے لیکن بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں معلوم نہیں کہ یہ یہاں پر کر کیا رہا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply