احترامِ حرم اور پخنا قوم۔۔عامر کاکازئی

ہم آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے، پہلی بار عمرہ ادا کرنے گئے  تھے۔ ہمارے خاندان میں روایت یا رسم ہے کہ پہلی بار حرم جانا ہو تو خاندان کے بزرگوں سےدعا لے کر جاتے ہیں۔ ہم بھی اپنے خاندان کے ایک بزرگ کے گھر گئے  اور ان سے دعا کے لیے کہا۔ انہوں نے دعا کے ساتھ صرف ایک نصیحت کی جو کہ مندرجہ زیل آیت بمہ ترجمہ کے ہمارےآگےرکھ کر کہا کہ اسے پڑھ لو۔ ترجمہ پڑھنے پر زور دیا کہ سمجھ آسانی سے آ جائے گا۔

سورۂ حُجرات
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو ،جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو. 49:2

بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حضور میں اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی وه لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لئے جانچ لیا ہے۔ ان کے لئے مغفرت ہے اور بڑا ثواب ہے 49:3

جب پڑھ چکے تو ہمیں کہا کہ بیٹا کچھ نہ بھی کرو،تم سے کوئی عبادت بھی نہ ہو سکے مگر دونوں حرم کے احترام کا خیال رکھنا، شور مت کرنا، نہ ہی اونچی آواز میں گفتگو کرنا، نہ ہی جھگڑا۔

اگر تمہیں کسی مخصوص جگہ پر عبادت کرنے کا موقع  نہیں ملتا تو اس جگہ کے حصول کے لیے نہ ہی دھکے دینا اور نہ ہی شور کرنا۔ یاد رکھنا کہ تم بہت ہی مقدس جگہ کے مکین ہو گے تو اس جگہ کے احترام میں خاموشی سے جہاں جگہ ملے عبادت کرنا۔ کیونکہ مکہ اور مدینہ کی ہر جگہ مقدس ہے کہ کچھ نہیں پتہ کس کس جگہ سے رسول پاکﷺ  کا گزر ہوا تھا۔

ایک اور بات کی بھی نصیحت کی، کہ عبادت کرتے وقت اپنے ذہن میں کیلکولیٹر مت رکھنا۔ مقدس سرزمین پر محبت اور عشق سے ادا ہوۓ دو فرض بھی بہت ہیں کہ کجا تم لوگوں سے کسی جگہ کے لیے لڑو کہ اس جگہ عبادت کرنے سے لاکھوں کا ثواب ملے گا۔
ہم نے باندھا ہے تیرے عشق میں احرامِ جنوں
ہم بھی دیکھیں گے تماشا تیری لیلائی کا

پہلی بار حرم میں داخلہ اور عمرہ تو ہم نے جیسے ایک ٹرانس کے تحت ادا کیا۔ جس میں سوائے خانہ کعبہ کو دیکھنے کے علاوہ، اس پاس کا کچھ ہوش نہیں تھا۔ عمرے  کے بعد جب اگلے پہر، دوبارہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو عجیب منظر دیکھا کہ لوگ حجرِ اسواد کو چومنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ باقائدہ لڑائی کر رہے تھے۔ حطیم میں دو نفل ادا کرنے کے لیے لوگ ایک دوسرے کو دھکے دے رہے تھے۔ ایک پاکستانی پشتون جو کہ باب کعبہ سے پندرہ منٹ سے لٹکا موبائل پر اپنے گھر بات کر رہا تھا، سے درخواست کی کہ بھائی جی صرف چھو کر محسوس کرنا ہے اس کے لیے ایک منٹ بھی کافی ہے۔ ذرا سی جگہ دے دو۔ اس نے اس جگہ کھڑے ہو کر جو پشتو میں کہا وہ ہمارے لیے صرف ایک شاک تھا اور کچھ نہیں۔

بہت افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اکثریت پاکستانیوں کی ایسی بدتمیزیاں کرتی ہے۔ دھکے، گالیاں اور ایک مخصوص جگہ پر عبادت کے لیے لڑنا ،یہ کام پاکستانیوں کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ ترکش اور چپٹے ان سب میں مہذب قوم   شمار ہوتے تھے۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ مدینہ میں سکون ملے گا، ہر غم و فکر سے آزاد۔ ہر آنے والا رسول پاک ﷺ کا مہمان، جسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے شہر میں ہے جدھر اسے امن و امان ملے گا۔ محبت ملے گی۔ یہ بات سو فیصد درست ہے اور ہمارے  ذاتی تجربے  کے مطابق کہ اس شہر کے  باسی محبت کرتے ہیں، ہر کوئی مدد کے جذبے سے شرشار نظر آتا ہے۔

جب ہم مدینہ پہنچے تو جمعہ کا دن تھا، ہوٹل سے فارغ ہو کر روضہ رسول پاک ﷺ پر حاضری دینے تقریباً نو بجے پہنچ گئے ۔ ریاض الجنتہ جب پہنچے تو اس چھوٹی سی جگہ پر کچھ پاکستانی جن کا تعلق کراچی کی اردو سپیکنگ بزنس کمیونٹی سے تھا قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ پاکستانی ریاض الجنتہ پر بیٹھ کر موبائل پر کراچی سے بزنس کے سلسلے میں مسلسل رابطے  میں تھے۔ ان سے درخواست کی کہ ذرا سی جگہ دے دیں کہ دو نفل ادا کر سکیں، مگر بہت درشتی کے ساتھ ہمیں انکار کر دیا اور کہا کہ تمہیں کیا پتہ کہ اس جگہ جمعہ پڑھنے کا کتنے لاکھوں کا ثواب ملے گا۔ ہم کیوں جگہ دیں؟

اتفاق سے ہم بارہ ربیع الاوّل کو بھی مدینہ میں ہی تھے۔ بارہ کو نماز فجر ادا کرنے کے بعد عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ بریلوی حضرات ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں روضہ کے باہر کھڑے ہو کر نعرہ رسالت کے نعرے لگا رہے تھے اور اونچی اونچی آواز میں درود پڑھ رہے تھے۔ ہمارے قریب ہی ایک  شخص بہت ہی بلند آواز سے نعت پڑھ  رہا تھا، اس سے درخواست کی کہ بھائی جی ذرا آہستہ آواز یا دل میں پڑھ لو، بولا کہ اگر تیز اور اونچی آواز سے نہ پڑھا تو رسول پاک ﷺ تک میری آواز کیسے پہنچے گی؟

ہم نے تریمت سے اس بارے میں بات کی  تو بولی کہ عورتوں والی سائیڈ پر تو اس سے بھی زیادہ ناشائستگی ہے۔ ریاض الجنتہ پر نفل ادا کرنے کے لیے عورتیں شور مچاتے ہوئے ایک ریلے  کی شکل میں بھاگتی ہیں۔ دھکا   دیتے  ہوئے ایک دوسرے کے سَروں پر نفل ادا کیے جاتےہیں۔

ہمارے جیسے گناہگار اور مذہبی روایات سے دور انسان جس کو اس کے بزرگ نے ادب اور خاموشی کی نصیحت کے ساتھ بھیجا تھا، کے لیے یہ سب شور، ہنگامہ اور بے ادبی کو دیکھنا ناقابل یقین تھا۔

ایک آلودہ دامن اور اپرادھی ہونے کے باوجود اور بہت سے مذہبی رسومات سے دور ایک بشر کے لیے ایک مقدس جگہ پر اس قسم کی بدتہذیبی کو جھیلنا ایک تکلیف دہ عمل تھا۔

ہم وہ گستاخ قوم ہیں جو صرف شک کی بنیاد پر رسول پاک ﷺ کے لیے معصوم انسانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں مگر دوسری طرف اپنے ہی رسول پاک ﷺ کے روضہ مبارک پر، اللہ کے واضح  احکامات ہونے کا باوجود ان ہی کے ساتھ اونچی آواز میں بات اور یاوہ گو ئی کرتے ہیں۔

قرآن میں اللہ کے اپنے رسول ﷺ کے متعلق اتنے واضح ادب و آداب کے احکامات ہونے کے باوجود،آ خر پاکستانی مسلمان کیسے اتنی بدتمیزی کر لیتے ہیں۔سمجھ سے باہر ہے۔

مضمون کو حاشر ابن ارشاد صاحب کے کہے ہوئے ان الفاظ پر ختم کرتے ہیں کہ

“محبت کے راگ اب حرام ٹھہرے ہیں اور نفرت کا نقارہ زور سے بج رہا ہے۔ مجھے بس یہی شکوہ ہے، میرے پاس ایک نبیؐ تھا جو سر سے پیر تک محبت تھا اور مجھے صرف اس کی محبت سے واسطہ تھا۔ اس کی محبت سے امید تھی۔ ظالمو، تم نے وہ چھین لیا ہے۔ بس میرا وہ نبیؐ مجھے واپس کر دو۔”

“بس میرا وہ نبیؐ مجھے واپس کر دو”

Advertisements
julia rana solicitors

ہم جناب حاشر بن ارشاد صاحب کے مشکور ہیں کہ انہوں نے اپنی لکھت میں سے ایک چھوٹا سا   حصہ ہمیں اپنی تحریر میں شامل کرنے کی اجازت دی۔
فوٹو: محمد ککازئی

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply