ضرورت نہیں ہے۔۔ حبیب شیخ

مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے

اِس نئے نظام کی، اُس پرانے نظام کی

نہ انتخابات کی نہ سیاسی جماعت کی

نہ کسی شعبدہ بازکی نہ نئےامتحانات کی

نہ ان کے منشوروں کی ،نہ ان کے نعروں کی

نہ ان کے وعدوں کی، نہ ان کی تقریروں کی

نہ ان کے جلسوں کی ،نہ ان کےجلوسوں کی

نہ چرب زبانوں کی، نہ ناپاک آنکھوں کی

نہ ووٹ لینے والوں کی ،نہ ووٹ دینے والوں کی

مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے

نہ کسی سیاستدان کی ،نہ سرکاری افسران کی

نہ احتساب بلا انصاف کی، نہ انصاف بلا احتساب کی

نہ ضمیر بیچنے والوں کی ،نہ ضمیر خریدنے والوں کی

نہ ڈرانے دھمکانے والوں کی، نہ خواب دکھلانے والوں کی

نہ ان سرکاری ایوانوں کی ،نہ ان سجے دیوانوں کی

نہ اِن راکٹ اور میزائیلوں کی، نہ اُن کے بڑے توپخانوں کی

مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے

ان غرباء کے مدرسوں کی، ان امراء کے انگریزی اسکولوں کی

واعظ اور ناصح کی، مبلغ اور منبر کے پاسبانوں کی

ان اکڑے ہوئے نادانوں کی، ان جھکے ہوئے غلاموں کی

ان ڈاکوؤں کی اور ان کے سرکاری چوکیداروں کی

اِن کی عالیشان عمارتوں کی، اُن کے وسیع وعریض محلوں کی

مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے

نہ زکوٰۃ کی، نہ خیرات کی

نہ ادھار کی، نہ پندار کی

نہ پُر مغز کھانوں کی، نہ سلاطینی دسترخوانوں کی

نہ اعلیٰ مشروبات کی نہ، درآمد شدہ آب کی

نہ اونچے درو دیوار کی ،نہ اعلیٰ ذات پات کی

نہ ورثہ کی، میراث کی ،نہ کسی کے انعام و اکرام کی

مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے ضرورت نہیں ہے

نہ سوز سے خالی دلوں کی، نہ بے حس چہروں کی

نہ کسی مجازی آقا کی ،نہ کسی ذہنی غلام کی

نہ انا کے پجاریوں کی، نہ نفس کے بیوپاریوں کی

نہ کسی بت شکن کی ،نہ کسی بُت پرست کی

نہ گرمئی عشق کی ،نہ شوخئی حسن کی

نہ غزنوی کی تڑپ کی، نہ خمِ زلفِ ایاز کی

میری صرف اور صرف ایک ضرورت کو سمجھو

میرے اک پیدائشی حق کو مانو ،

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھ مفلس کو بھی اک انسان جانو، مجھے بھی اک انسان جانو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply