پار چناں دے – چندربھاگا سے چناب تک کا سفر(حصّہ دوم)۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

تاریخی اہمیت کی بات کریں تو مغلیہ دور میں، مغل بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ گجرات ہی تھا۔ جب کشمیر سے واپسی پر مغل شہنشاہ جہانگیر کا انتقال ہوا تو اس کے اعضاء خراب ہونے سے بچانے کے لیئے پیٹ کی انتڑیاں نکال کر گجرات میں ہی دفنا دی گئیں، جہاں اب ہر سال شاہ جہانگیر کے نام سے ایک میلہ لگتا ہے۔
انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دو بڑی لڑائیاں اسی ضلع میں لڑیں گئیں، جن میں چیلیانوالہ اور گجرات کی لڑائی شامل ہیں۔ اور گجرات کی لڑائی جیتنے کے فورا بعد انگریزوں نے 22فروری 1849 کو پنجاب کی جیت کا اعلان کر دیا تھا۔
گجرات ہی کے قریب پہلے ”الیگزینڈر برج” پر سے لاہور پشاور مرکزی ریلوے لائن اور پھر گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) چناب پر سے گزرتی ہے۔ گجرات، پنجاب كا ايک ایسا ضلع جہاں كے بہت سے لوگ بیرونِ مُلک كام كرتے ہيں اور وطنِ عزیز کو قیمتی زرِمبادلہ کما کر بھیجتے ہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر برطانیہ، یونان اور ناروے میں آباد ہیں۔
گجرات ہی وہ جگہ ہے جہاں چناب کنارے سوہنی مہیوال کی عشقیہ داستان نے جنم لیا۔
سوہنی، گجرات میں ایک کمھار کے گھر پیدا ہوئی تھی جس کا حسن دور دور تک مشہور تھا۔سوہنی کے والد کی دکان رام پیاری محل کے قریب دریا کے کنارے پر واقع تھی۔ مہینوال کا اصل نام عزت بیگ تھا، اس کا تعلق بخارا سے بتایا جاتا ہے۔ عزت بیگ تجارت کی غرض سے گجرات آیا اور وہیں مقیم ہو گیا۔
ایک روز عزت بیگ برتن خریدنے عبد اللہ کمہار کے گھر پہنچا تو اُس کی نظریں سوہنی سے چار ہوئیں تو دونوں پر سکتہ طاری ہو گیا اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
عزت بیگ نے سوہنی کے قریب رہنے کے لیئے اس کے باپ کے ہاں ملازمت کرلی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ سوہنی اور مہنیوال کے عشق و محبت کی داستان نہ صرف سوہنی کے باپ بلکہ دور دراز کے علاقوں تک جا پہنچی۔ بد نامی کے خوف سے کمھار نے سوہنی کا رشتہ اپنے ہی خاندان کے ایک نوجوان سے طے کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں اس کی شادی کردی۔
سوہنی رخصت ہوکر اپنے شوہر کے ساتھ دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے شوہرکے گھر چلی گئی جب کہ مہینوال اسی کنارے پر رہ گیا۔ اب ان کے بیچ چناب حائل تھا۔ سوہنی نے اپنی محبت کی تسکین اور محبوب سے ملاقات کے لیے ایک منفرد طریقہ ایجاد کیا۔ چونکہ وہ مٹی کے ظروف بنانے میں مہارت رکھتی تھی اس لیے اس نے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے پکی مٹی سے ایک گھڑا تیار کیا اور روزانہ رات کی تاریکی میں اپنے محبوب مہنیوال سے ملنے دریا کے پار پہنچ جاتی۔
یہ بات جب اس کی نند کو پتہ چلی تو اس نے ایک دن پکی مٹی کے گھڑے کی جگہ ایک کچی مٹی سے بنا گھڑا رکھ دیا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ سوہنی تیرنا نہیں جانتی۔ اس بات سے بے خبر سوہنی وہی کچی مٹی کا گھڑا اٹھا کر اس کی مدد سے دریا میں اتر جاتی ہے۔ پانی میں اترنے کے بعد کچی مٹی سےبنے گھڑے کی مٹی گھلنے لگتی ہے اور دریا کے عین وسط میں پہنچ کرگھڑا بالکل پگھل جاتا ہے اس کے ساتھ ہی سوہنی بھی ڈوبنے لگتی ہے۔
موت کے خوف سے سوہنی بے اختیار مہینوال کو پکارتی ہے۔ مہینوال جو دریا کے دوسرے کنارے پر سوہنی کے آنے کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس کی چیخیں س دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اسے بھی تیرنا نہیں آتا تھا، اس لیے سوہنی کے ساتھ وہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ دونوں کی محبت چناب میں امر ہو جاتی ہے۔

کچے گھڑے کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا عشق

بپھری ہوئی تھیں سامنے لہریں چناب کی

یہ قصہ اتنا مشہور ہوا کہ فضل شاہ نے اس پر طویل نظم لکھی، سوبھا سنگھ نے اسے صفحہ قرطاس پر اتارا، پٹھانے خان اور عالم لوہار نے اسے گایا اور پھر کوک اسٹوڈیو میں نوری بینڈ کا گانا دوبارہ اسی قصے سے متاثر ہو کر بنایا گیا۔ بالی وڈ میں اس قصہ پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

چناب پار گجرات کے دوسری طرف وزیر آباد ہے جو کٹلری (چھری کانٹے) کی صنعت کے لیئے جانا جاتا ہے۔
اس شہر کی بنیاد مغل بادشاہ، شاہ جہاں کے ایک گورنر وزیر خان نے رکھی تھی جن کے نام پہ یہ وزیر آباد کہلایا۔ صنعتی لحاظ سے یہ پنجاب کی ”سنہری تکون” کا حصہ ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ دنیا بھر میں کٹلری اور سرجیکل آلات بنانے میں مشہور ہیں۔ وزیر آباد کو کٹلری کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ قریبی دیہات چاول، گندم، سبزیوں اور گنے کی پیداوار میں بھی مشہور ہیں۔ بون کرشنگ فیکٹریوں کے علاوہ ڈومیسٹک پریشر کخکرکے لحاظ سے بھی یہ علاقہ نمایاں ہے۔ یہ شہر ایک اہم جنکشن ہے جو سیالکوٹ اور فیصل آباد کو جانے والی ٹرینوں کو راستہ فراہم کرتا ہے۔
کچھ جنوب میں شادی وال کے قریب ”بھمبر نالے” میں ضم ہو کہ نہر ”اپر جہلم” چناب میں آ ملتی ہے جس کے ساتھ ہی خانکی ہیڈورکس واقع ہے۔
خانکی ، 1889 میں بنایا جانے والا پاکستان کا سب سے پرانا بیراج ہے جو ضلع گوجرانوالہ کی حدود میں واقع ہے۔ 1920 اور 33 میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے باعث اس بیراج کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا جو 2017 میں مکمل ہوا۔
جھنگ، چنیوٹ، حافظ آباد، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع کی ہزاروں ایکڑ اراضی کو پانی پہنچانے والی نہر ”لوئر چناب” اسی ہیڈ ورکس سے نکلتی ہے جس کی ذیلی شاخوں میں جھنگ برانچ، رکھ برانچ اور گوگیرہ کینال شامل ہیں۔
رکھ برانچ نہر1892 میں انگریزوں نے ساندل بارکو سیراب کرنے کے لیئے نکالی تھی جو حافظ آباد، سکھیکی، سانگلہ ہل، سالاروالا اورچک جھمرہ کے دیہات کو سیراب کرنے کے بعد فیصل آباد میں داخل ہوتی ہے۔

جیسے ہی چناب جنوب میں اپنا سفر شروع کرتا ہے اسکی مغربی جانب ضلع منڈی بہاؤ الدین شروع ہو جاتا ہے جو ایک زمانے میں ضلع گجرات کا حصہ تھا۔ اپنے بہترین چاول کے لیئے مشہور یہ ضلع گوندل بار بھی کہلاتا ہے۔ اس ضلع میں داخل ہوتے ہی چناب کنارے پہلا قصبہ ”جوکالیاں” کا ہے جو مشہور ادیب و ڈرامہ نگار ”مستنصر حسین تارڑ” کا آبائی علاقہ بھی ہے۔ جوکالیاں کے نام سے ہی انہوں نے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔
جوکالیاں سے آگے کچھ جنوب میں گوجرانوالہ کی طرف ”رسول نگر” واقع ہے جو ایک تاریخی و قدیم قصبہ ہے۔
رسول نگر جس کا سابقہ نام رام نگر تھا، بھی اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے- تاریخی حوالے سے اس کا نام پہلے بھی رسول نگر تھا، رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ نے جب اس پر حملہ کیا تو اسی دوران اسے رنجیت سنگھ کی پیدائش کی اطلاع ملی، اس قصبہ کو فتح کرنے کے بعد اس نے اس کا نام رام نگر رکھ دیا۔
رنجیت سنگھ نے دریائے چناب کے کنارے شہر رسول نگر سے 2 کلومیٹر مشرق کی جانب اپنے دور کی خوبصورت ترین بارہ دری تعمیر کی اور دریا میں اترنے کے لیے زیر زمین سرنگ بھی تعمیر کی جس میں اس کے اہل خانہ نہانے کے لیے اترتے تھے۔
مہا راجا رنجیت سنگھ ہر سا ل کچھ عرصہ یہاں قیا م کرتا تھا۔
اسی مقام پر خالصہ فوج اور برطانوی فو ج کے درمیان لڑا ئی میں بر طا نو ی فو ج کے کئی آفیسر ہلاک ہوئے جن کی قبر یں علا قہ بھر میں کھڑی قبروں کے نا م سے مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں سکھوں کی مڑیاں اور ایک تاریخی جین مندر بھی موجود ہے جسے رنجیت سنگھ کے دور میں ایک جین سادھو ”بُدھ وجے” نے بنوایا تھا-

یہاں سے چناب ضلع حافظ آباد و منڈی بہاؤ الدین کی سرحد بناتا ہوا رواں دواں ہے جہاں اس کےغربی کنارے سے ”رسول – قادرآباد لِنک کینال” چناب میں ملتی ہے۔ جہلم پر واقع رسول بیراج سے نکلنے والی اس نہر کی پانی چھوڑنے کی صلاحیت پاکستان میں چشمہ جہلم کینال کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ پانی سے بھری یہ نہر کسی چھوٹے ملک کے بڑے دریا جیسا منظر پیش کرتی ہے۔
یہاں دوسری طرف حافظ آباد کا قصبہ ”قادر آباد” واقع ہے (اسی نام کا ایک علاقہ پھالیہ میں بھی ہے) جہاں1967 میں قادرآباد بیراج بنا کہ ”قاد آباد – بلوکی” لنک کینال نکالی گئی تھی ۔ یہ نہر رسوال بیراج سے موصول شدہ پانی چناب سے لے کہ حافظ آباد ، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب کے اضلاع سے ہوتی ہوئی بلوکی کہ مقام پر راوی میں ڈالتی ہے۔
یہاں حافظ آباد کی حدود میں چناب کنارے کوٹ عالم، کوٹ دائم و گڑھی کلاں کے قصبے واقع ہیں۔
اب چناب کی مغربی سمت ضلع سرگودھا شروع ہو چکا ہے جو اپنی زرخیزی اور بہترین کینو کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہیں چناب کنارے سرگودھا کا مشہور قصبہ ”تخت ہزارہ” واقع ہے۔ کسی دور میں ”کھجیانوالہ” کہلایا جانے والا یہ شہر مشہور رومانوی داستان ”ہیر رانجھا” کے رانجھا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے مطابق یہ ایک بڑا شہر ہوا کرتا تھا جو سکھوں کے حملوں کے باعث ایک قصبہ بن کہ رہ گیا۔

تخت ہزارہ رانجھا سے وابستگی کی وجہ سے مشہور ہوا جس کی کہانی پنجابی صوفی شاعر وارث شاہ نے ہمیشہ کے لیے ”ہیر وارث شاہ” میں امر کر دی ہے۔ مقامی مصنف میاں محمد شفیع نے اپنی کتاب ”صدف ریزے” میں تخت ہزارہ کے ثقافتی ورثے کا ذکر کیا ہے جس میں میاں رانجھا کے نام سے ایک پرانی مسجد بھی شامل ہے جس کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے بھی اپنی کتاب ”تزک بابری” میں تخت ہزارہ کے بارے میں لکھا ہے ۔اس سے آگے مڈھ رانجھا کا قصبہ ہے جس کے قریب لاہور سے اسلام آباد جاتی ہوئے موٹروے ایم 2 چناب پر سے گزرتی ہے۔
چناب اب حافظ آباد کو چھوڑ کہ ضلع چنیوٹ میں داخل ہو چکا ہے جو پہلے ضلع جھنگ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہاں اس کے ارد گرد معدنیات سے بھرپور کِرانہ کی پہاڑیاں واقع ہیں۔ اپنے تاریخی ورثے، خوبصورت لکڑی کے کام، عمر حیات محل، تاریخی شاہی مسجد اور مختلف دھاتوں کے ذخائرکی بدولت مشہور چنیوٹ، پاکستان کا اٹھائیسواں بڑا شہر ہے۔
چنیوٹ میں موجود پہاڑ شہر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہیں جن سے ملنے والے نوادرات اور نقوش یہاں پر آباد قدیم تہذیبوں کا پتا دیتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑیاں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جو اپنے اندر بہت سے تاریخی راز اور نوادرات سموئے ہوئے ہیں۔ ان قدیم پہاڑوں پر موجود نشانات سے ماہرین آثار قدیمہ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگا پائے ہیں کہ یہ ہڑپہ تہذیب کی تحریر ہے یا پھر محض چٹانی نقوش اور اگر یہ کوئی خاص تحریر ہے تو کس اور کتنی پرانی تہذیب کی؟۔
چناب، ضلع چنیوٹ کے وسط میں بہتا ہے جہاں اس کے ایک طرف چنیوٹ تو دوسری جانب چناب نگر واقع ہے۔ دونوں شہروں کو چناب کا خوبصورت پل ملاتا ہے جس پر فیصل آباد سے سرگودھا جانے والی لائن اور روڈ بھی گزرتی ہے۔
چناب نگر کا پرانا نام ”ربوہ” ہے جو پاکستان میں قادیانیوں کا مرکز ہے۔ لفظ ربوہ عربی زبان سے لیا گیا ہے جس کے معانی اونچی جگہ کے ہیں۔ قریبا 50,000 آبادی والے شہر کی آبادی کا 95 فی صد حصہ اقلیتی جماعت احمديہ کے پیروکاروں سے تعلق رکھتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ربوہ وہ جگہ ہے جہاں محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان فتح کرنے کے بعد دریائے چناب کو عبور کر کے ”چندروٹ” کے راجا کے خلاف جنگ کی تھی۔ چندروٹ موجودہ چنیوٹ کا قدیمی نام ہے۔
موجودہ شہر ربوہ کی آبادی سے پہلے یہ جگہ ”چک ڈھگیاں” کہلاتی تھی اور اسے آباد کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہو چکی تھیں۔ 1948ء میں جماعت احمديہ کے مرکز کی قادیان، ہندوستان سے نقل مکانی کے بعد اس جگہ 1034 ایکڑ اراضی حکومت پاکستان سے بارہ ہزار روپے کے عوض مستعار لی گئی اور شہر کا نام ربوہ رکھا گیا۔ 14 فروری 1999 کو اس کا نام بدل کہ چناب نگر رکھ دیا گیا۔ یہاں منعقد ہونے والا سالانہ ختم نبوت جلسہ پاکستان کے بڑے اجتماعات میں سے ایک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply