ہماری مَت ماری گئی ہے۔۔جاوید چوہدری

وزیر اعظم کے بعد اب وزیر اعلی کا حلف بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے اور عدالت کو کہنا پڑا ہے کہ اس حلف میں تاخیر آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر آئیے اس معاملے کو آئین اور قانون کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم کے حلف کا معاملہ آیا تو صدر پاکستان کی طبیعت ناساز ہو گئی اور وزیر اعلی کے حلف کا وقت آیا تو گورنر صاحب ہسپتال جا پہنچے۔وزیر اعظم کے حلف کا معاملہ تو چیئر مین سینیٹ کے ذریعے حل کر لیا گیا لیکن اب پنجاب کے وزیر اعلی کا معاملہ باقاعدہ ایک آئینی بحران کی شکل اختیار کر چکا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تنازعے کو کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کی نظر سے دیکھنے کی بجائے صرف ایک شہری کے طور پر دیکھا جائے۔ ٓصدر پاکستان ایک آئینی منصب ہے ، سیاسی نہیں۔ اس منصب کے ساتھ کچھ آئینی تقاضے جڑے ہیں اور صدر کا بنیادی کام ہی ان آئینی تقاضوں کو نبھاتے رہنا ہے۔ صدر کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں۔ انتظامی اختیارات حکومت کے پاس ہوتے ہیں اور حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے ۔ صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ ریاست کا سربراہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے وہ جس بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہووہ کہانی اب پیچھے رہ گئی۔ اب اس کی شناخت کسی ایک گروہ سے تعلق نہیں بلکہ اب وہ ریاست کا سربراہ ہے اور ریاست میں ظاہر ہے کہ سبھی شہری اور تمام سیاسی جماعتیں موجود ہوتی ہیں۔ آئین پاکستان کے تیسرے حصے یعنی وفاق پاکستان میں ، صدر پاکستان کے عہدے کی تعریف و تشریح کی گئی ہے۔ آرٹیکل 41 میں دو بنیادی باتیں طے کی گئی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ صدر پاکستان ، اس ریاست کا سربراہ ہو گا اور دوسری بات یہ کہ بطور سربراہ ِ ریاست وہ پاکستان کی وحدت کا نمائندہ بن کر کام کرے گا اور اس اتحاد و یگانگت کی نمائندگی کرتا رہے گا۔ چنانچہ اسی وحدت کی علامت اور ریاست کے سر براہ کے طور پر اس کو کچھ آئینی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ صدر عملا محض ایک علامتی عہدہ ہے۔ ریاست کے بڑے کے طور یہ علامتی عہدہ چند رسمی فرائض تک محدود ہے جن میں سے ایک حلف لینا بھی ہے۔ سیاسی حریف بھلے الجھتے رہیں لیکن صدر کسی ایک گروہ کا نہیں ہوتا ، جو بھی پارلیمان سے وزیر اعظم بنے گا ، صدر اس سے حلف لے گا ۔ اس انتخاب سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیںہے لیکن ریاست کے بڑے کی حیثیت سے حلف وہی لے گا۔ یہاں مناسب ہو گا کہ صدر کا اپنا حلف بھی دیکھ لیا جائے کہ جب کوئی بھی آدمی صدر پاکستان بنتا ہے تو وہ کن باتوں کا حلف دیتا ہے۔یہ حلف آئین کے تیسرے شیڈول میں آرٹیکل 42 میں درج ہے۔اس حلف میں درج ہے کہ بطور صدر پاکستان اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض منصبی پوری دیانت داری سے ادا کروں گا اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کردوں گا ۔اور یہ کہ میں پوری دیانت کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کروں گا اور میرے پیش نظر ہمیشہ ریاست پاکستان کا مفاد رہے گا۔ اب اس حلف کے بعد اگر صدر پاکستان وزیر اعظم سے حلف نہ لیں تو کیا وہ اپنی ذمہ داریاں دیانت داری سے ادا کر رہے ہیں اور کیا ان کی اولین ترجیح ریاست کا مفاد ہے یا تحریک انصاف کا؟ یہی سوال پنجاب میں گورنر صاحب سے عدالت پوچھ رہی ہے کیونکہ گورنر صوبے میں صدر کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کے پاس بھی صدر کی طرح کوئی انتظامی اختیار نہیں ہوتا۔ وہ بھی صرف چند آئینی ذمہ داریوں تک محدود ہوتا ہے جن میں سے ایک آئینی ذمہ داری یہی حلف ہے جس سے گورنر صاحب دانستہ طور پر غفلت برت رہے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صدر پاکستان یہ حلف بھی اٹھاتا ہے کہ وہ سرکاری کاموں کو ذاتی مفادات کی وجہ سے متاثر نہیں ہونے دے گا۔ وہ یہ حلف بھی اٹھاتا ہے کہ میں آئین پاکستان کا تحفظ کروں گا اور چاہے کچھ بھی ہو جائے میں تمام کام آئین اور قانون کے مطابق کروں گا۔ آئین کے آرٹیکل 102میں گورنر کا حلف درج ہے۔ گورنر بھی یہ حلف اٹھاتا ہے کہ اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض منصبی پوری دیانت داری سے ادا کروں گا اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کروں گا ۔اور یہ کہ میں پوری دیانت کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا کروں گا اور میرے پیش نظر ہمیشہ ریاست پاکستان کا مفاد رہے گا۔گورنر کے حلف میں بھی یہ لکھا ہے کہ وہ سرکاری کاموں کو ذاتی مفادات کی وجہ سے متاثر نہیں ہونے دے گا۔ صدر کی طرح گورنر بھی یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ آئین پاکستان کا تحفظ کرے گا اور چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ تمام کام آئین اور قانون کے مطابق کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا گورنر پنجاب اس حلف کے مطابق کام کر رہے ہیں؟کیا حلف کی خلاف ورزی کوئی معمولی بات ہے ؟ اس سے بھی سنگین سوال یہ ہے کہ حلف کی خلاف ورزی کرتے آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کرنے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ آرٹیکل 6 میں ترمیم کے بعد اب آئین شکنی کا سنگین غداری کا جرم محض آئین کی پامالی تک محدود نہیں رہا ، آئین کو جزوی طور پر التواء میں ڈالنے کو بھی صریح غداری کہا جاتا ہے۔ پھر ہمارے ہاں آرٹیکل 6کی بات تو ہوتی ہے لیکن ایک آرٹیکل اس سے بھی اہم ہے اور وہ آرٹیکل 5ہے ۔ آرٹیکل 5 ہر شہری پر دو ذمہ داریاں عائد کرتاہے ۔پہلی یہ کہ وہ ریاست کا وفادار رہے گا۔دوسری یہ ہے کہ وہ آئین کا حترام کرے گا۔ قانون کے ایک طالب علم کے طور پرمیرے پیش نظر یہ سوال ہے کہ کیا صدر اور گورنر اپنے حلف کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا ارتکاب بھی نہیں کر رہے؟کیا ریاست کے مفاد پر ان کا سیاسی گروہی مفاد غالب نہیں آ چکا؟کیا وہ اس رویے کے مضمرات سے آگاہ ہیں؟ کیا آئینی عہدوں پر براجمان شخصیات کو زیب دیتا ہے کہ سیاسی ترجیحات کو آئین اور اپنے حلف سے بھی مقدم بنا کر رکھیں؟ سیاست میں ایک سو ایک اختلاف ہو سکتے ہیں لیکن اس ایک بات پر کوئی دوسری رائے نہ ہو سکتی ہے نہ ہونی چاہیے کہ آٓئین میں دی گئی ذمہ داریوں اور اپنے حلف سے روگردانی ایسی حرکت نہیں ہے جس کی تحسین کی جا سکے۔آئینی مناصب کو بازیچہ اطفال بنانے کی رسم اجتماعی زندگی کو مزید الجھا دے گی۔اہل سیاست کے ایک دوسرے سے جھگڑے بھی ہو سکتے ہیں اور گاہے وہ بہت شدید بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ جھگڑے پارلیمان میں طے ہونے چاہئیں۔ گورنر اور صدر کا منصب آئینی منصب ہے اور ان جھگڑوں سے بالاتر ہے حتی کہ سیاسی وابستگیوں سے بھی بالاتر ہے۔ صدر پاکستان اور گورنر چاہیں تو اپنے حلف کی عبارت کو خود پڑھ کر دیکھ لیں ، ہر چیز ’’ قنونی‘‘ مشیروں پر چھوڑ دینا نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply