• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دعا زہراء، نمرہ کاظمی، ہیجان زدہ معاشرہ اور ہم۔۔تبرید حسین

دعا زہراء، نمرہ کاظمی، ہیجان زدہ معاشرہ اور ہم۔۔تبرید حسین

میں نے ایک معتبر عالم سے روایت سنی تھی کہ جب ایک با پردہ ماں کو جنت کی طرف لے جایا جا رہا ہوگا تو اس کو روک دیا جائے گا کہ ٹھہرو اسکا رخ جہنم کی طرف موڑ دو، کیونکہ یہ خود تو با پردہ رہی مگر اس کی بیٹی بھی تھی، جو دنیا میں بے پردہ رہی۔ اس روایت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بطور والدین ہماری جوابدہی فقط اپنی ذات تک محدود نہیں بلکہ معاشرہ سازی میں خدا نے ہمارا کردار اس سے بڑھ کر متعین کر رکھا ہے۔ آیئے یہ مسئلہ اٹھا ہے تو اس کے کچھ پہلووں پر بات کرتے ہیں، جو عموماً ہماری ابحاث کا حصہ نہیں ہوتے۔

اولاد اور والدین کا رشتہ کیسا ہونا چاہیئے؟
میں اگر مذہبی اور نفسیات کے ماہرین کی رائے اور بطور باپ اپنے تجربات کو سمیٹوں تو والدین کو ایک ہمدرد، بہترین دوست اور اچھے رازداں والا تعلق پیدا کرنا چاہیئے نہ کہ ڈر اور خوف والا۔ تاکہ بچے بلا جھجک والدین سے اپنے مسائل ڈسکس کرسکیں۔ بچوں کیلئے والدین سے بہتر شفیق اور مخلص راہنماء بھلا کون ہوسکتا ہے۔؟ اسی طرح میں مشرقی و مغربی معاشروں میں بسنے والے مسلمانوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بچوں کی مذہبی و اخلاقی و تربیت کے حوالے سے اتنے تردد اور زحمت کے قائل نہیں، جو کہ وہ مادی و دنیاوی تعلیم کے حوالے سے اٹھاتے ہیں۔ مثلاً ہم 30 پونڈ فی گھنٹہ فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی ٹیوشن اور وقت تو دینے کو آمادہ ہیں مگر قرآن، سیرت آئمہ اور مذہب کی تعلیم کیلئے 20 پونڈ ماہانہ بھی دینے کو آمادہ نظر نہیں آتے۔ یہ بطور مدرسہ پرنسپل میرا فرسٹ ہینڈ experience ہے، جو عرض کر رہا ہوں۔ خدا کا وعدہ اور قانون قدرت بھی یہی ہے کہ۔۔ لیس للانسان الا ماسعی

ہمارے لندن میں یہاں ایک بزرگ تھے، جو اولاد کے ہاتھوں دکھی تھے تو ان کا ایک سادہ مگر انتہائی گہرا جملہ مجھ اب بھی یاد ہے۔ کہتے تھے “پتر گھر وچ کیکر لا کے اسیں گلاب دے پھلاں دی امید رکھدے آں۔” دوسرا اور اہم عنصر غیر ضروری ٹرسٹ کا ہے۔ وہ چاہے دوست ہوں، نوکر ہوں یا ہمارے بچوں کے دوست۔ ہمیں بطور والدین اپنی آنکھیں کھلی رکھنا چاہیں اور ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیئے۔ فی الحال اتنا اشارہ کافی ہے، ورنہ ہمارے ارد گرد ایسے تجربات بھرے پڑے ہیں۔ بچپن کو والدین شاید ایک تفریحی وقت یا Fun Age سمجھتے ہیں۔ یہ قیمتی وقت ہم انہیں مغربی معاشروں کے خاص مقاصد کیلئے تخلیق کردہ کارٹون اور انڈیا و پاکستان کے ڈرامے دکھا کر گزار دیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھئے، یہی وقت بچوں کی زندگی کا سب سے لازمی اور نازک سیکھنے کا دور بھی ہوتا ہے۔ یہیں سے کردار سازی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر بنیاد سازی کی یہ اینٹ ٹیڑھی رکھ دی تو پوری عمارت ہی ٹیڑھی ہوگی۔

اور تربیت کے حوالے سے آخری بات کہ ہمیں آئمہ اور اہلبیت (ع) کی سیرت و کردار کو مجلسوں میں داد دینے اور نعرہ لگانے سے ہٹ کر اپنی عملی زندگیوں میں اس سیرت کو اختیار کرنا ہوگا۔ یہی خدا کی مشیت اور مطمع نظر تھا۔ ہم نے قرآن کی طرح سیرت کو بھی اونچی الماری میں رکھ دیا اور سالانہ مجلس میں داد کیلئے ہی استعمال کرتے ہیں۔ آئمہ و اہلبیت کی سیرت ہمارے لئے مشعل راہ اور مینارہ نور و ہدایت تھی۔ ہماری بچیاں جو آج کسی ڈرامہ کی اداکارہ یا فلمسٹار کو آئیڈیلائیز کرتی ہیں جبکہ ان کی آئیڈیل تو حضرت آسیہ و مریم اور حضرت زہراء و زینب سلام اللہ علیہ ہونا چاہیں تھیں۔ اب معاشرے کے حوالے سے دیکھیں تو مسجد اور امام بارگاہ وہ بنیادی اکائی ہیں، جہاں تربیت کے حوالے سے یہ کام ہونا تھا، مگر ہمارے ارباب حل و عقد یہ فائدہ اٹھانے میں بھی ناکام رہے۔

نہ ہی علماء اور نہ ہی مساجد و امام بارگاہ کمیٹیاں کماحقہ اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہمیں اپنے بچوں اور یوتھ کو engage نہیں کرسکے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا چلوں کہ میں یہاں لندن میں ایک اسلامی ادارے میں ذمہ داری پر تھا۔ ہم نے محسوس کیا کہ ہم پانچ چھ حتٰی دس سال کے بچے کو دوران مجلس ان کی سمجھ بوجھ اور فہم کے مطابق وہ نہیں دے رہے، جو دینا چاہیئے۔ تو ہم نے پہلی دفعہ عمومی مجالس کے متوازی اسی وقت میں بچوں کی مجالس، آرٹ ورک، کربلا سے متعلق سٹوری ٹیلنگ، بچوں کا نوحہ و ماتم کا آغاز کیا، جو انتہائی شاندار اور کامیاب رہا۔ ہمیں روایتی انداز سے ہٹ کر وقت کی آواز کو سننا ہوگا۔

اور اس مخصوص واقعہ کے حوالے سے ڈھکے چھپے الفاظ میں آخری اور ضروری بات۔۔۔ ہمیں غیر ضروری طور پر یا ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے مذہبی کارڈ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔ اس طرح کے معاملات میں جیسے کچھ سوشل اور مذہبی تنظیموں نے ریٹنگ کے حصول میں یا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی غرض سے ان معاملات کو اچھالا اور مذہبی/فرقہ وارانہ کارڈ کا استعمال کیا لیکن میری نظر میں وہ اس حوالے سے خاموشی سے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ پر دباؤ بڑھا کر خاندان کے ہمراہ اس مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کرتے تو زیادہ بہتر حل تھا۔ اب خاندان تو جس اذیت سے دوچار ہوا، سو ہوا، ہم اپنی کمیونٹی اور مذہب کیلئے بھی ننگ و عار کا باعث بنے ہیں۔ اس عشرہ مغفرت و رحمت میں اپنے اپنے بچوں اور تمام محبان اہلبیت کیلئے رحمت، ترقی اور کامیابی و کامرانی کی دعاؤں کے ہمراہ۔ خدا ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply