• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قدس پر اسرائیلی حملے اور یوم القدس۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

قدس پر اسرائیلی حملے اور یوم القدس۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

قابض قوتوں کا پرانا حربہ ہے کہ مقامی باشندوں پر تشدد کرتی ہیں، انہیں قتل کرتی ہیں اور گرفتار کرکے قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال دیتی ہیں۔ ظلم و جبر سے یہ ظالم قوتیں ایسی نسل تیار کرنا چاہتی ہیں، جو ان کی غلام ہو، ایسی نسل جس میں خوداری اور قومی غیرت و حمیت نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ برطانوی استعمار نے ہندوستان میں یہی حربے استعمال کیے تھے۔ پنجاب کے اجتماعی شعور نے آج تک جلیانوالہ باغ کے سانحے کو نہیں بھلایا۔ پنجاب کے سینے پر لگا وہ زخم برطانوی استعمار کی سفاکیت کی علامت تھا۔ وہ سینکڑوں لاشیں اور بہنے والا خون پنجاب میں مزاحمت کی آواز بن گیا۔ ادھم سنگھ نے اس واقعہ کے ذمہ دار اس وقت کے پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ مائیکل او ڈائر کو لندن میں جا کر قتل کر دیا تھا۔ بعد میں چلنے والی تحریک آزادی میں امرتسر کے اس قتل عام نے اہم کردار ادا کیا اور تحریک آزادی کو جذباتی بنیادیں فراہم کیں۔ صیہونی ریاست بھی تشدد کا سہارا لے کر فلسطینی تحریک آزادی کو دبانا چاہتی ہے، مگر ان کے ہر ظلم و ستم کے جواب میں تحریک آزادی مزید آگے بڑھ جاتی ہے۔

صیہونی سکیورٹی فورسز نے تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہ بار بار مسجد اقصیٰ کے صحن مبارک میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب فلسطین کے غیور اور نہتے مسلمان مزاحمت کرتے ہیں تو یہ پرتشدد انداز میں مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو کافی پرانا ہے، مگر اب اس نے تسلسل کی شکل اختیار کر لی ہے۔ فلسطینی ماں کے ساتھ مسجد میں آئی بچیوں کے سامنے ان کی ماوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسی طرح بچے کے سامنے ان کے باپ پر تشدد کیا جاتا ہے، تاکہ ان کی عزت نفس کو جتنا ہوسکے مجروح کیا جائے۔ نام کی حد تک ہی سہی پہلے حرم شریف کا اہتمام اردن کے پاس تھا، مگر اب اس برائے نام انتظام کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا۔ مسجد کی دیواروں پر صیہونی ریاستی اداروں کی ہدایات کے اشتہارات لگائے جاتے ہیں اور ان پر درج قوانین پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس طرح کے کام کرکے صیہونی ادارے فلسطینی مسلمانوں کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انتہاء پسند صیہونی گروہ بار بار مسجد اقصیٰ کے صحن میں داخل ہونے اور یہودی طریقہ کے مطابق عبادت کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ صیہونی اہلکار انہیں روکنے کی نام نہاد کوشش کرتے ہیں، مگر اصل میں وہ انہیں باحفاظت لانے اور لیجانے کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔

ماہ مبارک رمضان میں صیہونی مداخلت بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلمان بڑی تعداد میں عبادت کے لیے بیت المقدس کا رخ کرتے ہیں تو وہ آزادی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، جس سے ان پر تشدد بہت بڑھ جاتا ہے۔ ویسے نہتے مسلمانوں پر ہونے والا تشدد ان مسلمان ریاستوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے، جو دنیا بھر میں اپنے ہمدردوں کو یہ سمجھا رہی تھیں کہ ہمارا اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنا خود اہل فلسطین کے لیے بہتر ہے۔ اس پوری صورتحال میں اردن، عرب امارات اور غالباً مصر کا فقط ایک بیان جاری ہوا، جس میں ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس تشویش سے فلسطینیوں کو کیا حاصل ہوگا؟ اور ہاں غلاموں کی تشویش بے معنی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو عملی اقدام کریں اب تو آپ کے سفارتی تعلقات ہیں، چلیں اسرائیلی سفیر کو ہی طلب کرکے احتجاج کر لیں؟ اپنے سفیر کو واپس بلانے کی دھمکی ہی دے دیں؟؟؟ ہمیں معلوم ہے کہ آپ یہ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔ بس عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے تشویش کا اظہار کر دیا۔

صیہونی ریاست ہر وہ اقدام کر رہی ہے، جس سے وہ اہل فلسطین کی مزاحمت کو کمزور اور پھر بعد میں ختم کرسکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی بحالی میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ بین الاقوامی طور پر یہ لابنگ کر رہی ہے کہ القدس فورس اور دیگر طاقتور ادارے جو فلسطینی مزاحمت کے حمایتی ہیں، ان پر پابندیاں برقرار رہیں۔ ایران اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں چند بڑے مسائل یہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران یہ چاہتا ہے کہ امریکہ سے دو طرح کی گارنٹیاں لی جائیں، ایک تو پہلے کی طرح یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے اور دوسرا ایسا نہیں ہوگا کہ مختلف حیلے بہانے کرکے پابندیوں کو دوبارہ سے نافذ کر دیا جائے۔ یہ امریکہ کا طریقہ واردات ہے کہ وہ ایسے معاہدے کرتا ہے، جن کی من مانی تشریحات ممکن ہوتی ہیں اور پھر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ اب معاہدے کے ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ امریکہ سے گارنٹیز لے لی جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

امت مسلمہ کو قدس میں ہونے والے واقعات سے آگاہ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ بہت افسوسناک صورتحال ہے، ہم چھوٹے موٹے مقامی سیاسی معاملات میں الجھے رہتے ہیں۔ سیاسی عصبیتیں اس قدر زیادہ ہوگئی ہیں کہ ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں۔ چند سال پہلے تک فلسطین کے چھوٹے سے مسئلہ پر بھی ہمارا میڈیا یکسو ہو کر آواز بلند کرتا تھا، مگر آج قبلہ اول کی خبریں کہیں پیچھے چلی گئی ہیں۔ امام خمینیؒ کی قبر پر اللہ تعالیٰ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، یہ ان کی بابصیرت قیادت تھی، جس نے محسوس کر لیا تھا کہ بین الاقوامی طاقتیں قدس کو امت کے ذہنوں سے محو کرنا چاہتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یوم القدس کا آغاز کیا، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں فلسطینوں کے حق میں آواز بلند کی جاتی ہے اور قبلہ اول کی آزادی کی جدوجہد کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply