سیاست کا بیانیہ پِٹ گیا۔۔پروفیسررفعت مظہر

پاکستان میں مذہب اور امریکہ مخالف بیانیے کے چورن خوب بِکتے ہیں۔ عمران خاں کو جب یقین ہو گیاکہ اُن کی “شیروانی” شدید خطرے میں ہے تو وہ امربالمعروف کی تلوار سونت کر امریکی سازش کا مراسلہ لہراتے باہر نکل آئے۔ اُنہوں نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا کہ یہ امریکہ میں متعین پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کا مراسلہ ہے جس میں امریکی سازش کو عیاں کیا گیا ہے۔

اِس سازش میں پاکستان کی اپوزیشن بھی شامل ہے اور وہ مل کر اُنہیں اقتدار سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خاں جانتے ہیں کہ پاکستانی قوم میں امریکہ مخالف جذبات ہمیشہ عروج پر رہتے ہیں۔ اِسی لیے اُنہوں نے یہ بیانیہ ترتیب دیا۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نَومنتخب وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے 21 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا جس میں امریکہ میں متعین سابق پاکستانی سفیر اسدمجید نے آن لائین بریفنگ دی اور شرکاء میں اس مراسلے پر سیرحاصل بحث بھی ہوئی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ اِس مراسلے میں قطعی طور پر کسی سازش کا کوئی ذکر نہیں۔ اِس سے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بھی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اِس مراسلے میں کسی قسم کی سازش کا کوئی ذکر نہیں۔ اسدمجید کی گواہی اور قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کے بعد اب عمران خاں کا “سازشی خط” والا بیانیہ دَم توڑ رہا ہے۔ اِسی لیے اب وہ اپنے خطابات میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکہ، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور “نیوٹرل”، سبھی اُن کے مخالف ہیں۔ اُنہوں نے 21 اپریل کے جلسے میں کہا “ہمیں اگر دیوار سے لگایا گیا تو پاکستان نہیں “آپ” کا بڑا نقصان ہوگا”۔

ظاہر ہے کہ یہ دھمکی براہِ راست اسٹیبلشمنٹ کو دی گئی ہے کیونکہ کپتان امریکہ کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اپوزیشن نے اُنہیں جو نقصان پہنچانا تھا، پہنچا چکی۔ یوتھیے اب بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خاں کو امریکی سازش کے تحت حکومت سے نکالا گیا ہے لیکن یہ بیانیہ اب پِٹ رہا ہے۔ چونکہ عمران خاں جانتے ہیں کہ امریکی سازش والا بیانیہ دَم توڑ رہا ہے اِسی لیے اُنہوں نے اب عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اُن کا اپنا انتخاب تھا اور ماضی قریب میں کپتان چیف الیکشن کمشنر کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اب فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے خوفزدہ کپتان اُنہیں بھی اِسی سازش کا حصّہ قرار دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنرکا نام اسٹیبلشمنٹ نے تجویز کیا اور شیخ رشید بھی اُس کی تعریفیں کرتا تھا۔ ایک طرف تو عمران خاں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے لیکن ساتھ ہی ڈکٹیشن کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ قاضی

فائزعیسیٰ ریفرنس کو اپنی غلطی قرار دیتے ہوئے اِس کا الزام بھی وہ سابق وزیرِقانون فروغ نسیم پر لگا رہے ہیں جبکہ فروغ نسیم نے اِس الزام کی بھرپور تردید کی ہے۔ اب پتہ نہیں عمران خاں کے نزدیک ڈکٹیشن کی تعریف کیا ہے۔

یوں تو ہر تحریکیہ یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ کپتان جھوٹ نہیں بولتا لیکن حقیقت اِس کے برعکس کہ کپتان کی زبان نے شاید ہی کبھی سچ اُگلا ہو۔ 2000ء سے 2022ء کے اوائل تک خاں کے بیانات سامنے رکھ لیں (گوگل سرچ کے ذریعے یہ سارے بیانات دیکھے جا سکتے ہیں) آپ پر عیاں ہو جائے گا کہ کپتان کو سچ سے شدید نفرت ہے۔ اب بھی وہ جھوٹ کی آڑھت سجائے کبھی پشاور، کبھی کراچی اور کبھی لاہور میں جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔

اُنہوں نے 21 اپریل کو مینارِ پاکستان کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا “میں نے اتنے بڑے جلسے سے پہلے کبھی خطاب نہیں کیا”۔ حقیقت مگر یہ کہ 30 اکتوبر 2011ء کو اِسی جگہ اُن کا جلسہ موجودہ جلسے سے کہیں بڑا تھا۔ اُنہوں نے کہا “پرویز مشرف نے ایک فون کال پر گھٹنے ٹیک دیئے”۔

بالکل بجا! مگراُس وقت کپتان پرویز مشرف کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا تھا اور پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے حق میں تحریکِ انصاف کا جھنڈا اُٹھائے گلی گلی کمپین کرتا پھرتا تھا۔ وہ تو گڑبڑ اُس وقت ہوئی جب 2002ء کے عام انتخابات کے بعد پرویزمشرف نے حسبِ وعدہ وزارتِ عظمیٰ کا تاج اُن کے سَر پر نہیں رکھا۔ اب ظاہر ہے کہ مشرف کی مخالفت تو بنتی تھی۔

عمران خاں کے سابق سپیکر اسدقیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو اپنے ہیرو قرار دینے سے عیاں ہوا کہ ہر وہ شخص جو کپتان کی خاطر آئین شکنی کرے وہ اُن کا ہیرو قرار پاتا ہے۔ قاسم سوری نے 3 اپریل کو عدمِ اعتماد پر ووٹنگ کی بجائے تحریکِ عدم اعتماد کو ہی غیرقانونی قرار دے کر قومی اسمبلی کا اجلاس ختم کر دیا۔ بعدازاں چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے قاسم سوری کی رولنگ کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے 9 اپریل صبح ساڑھے 10 بجے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دیا۔

9 اپریل کو جب صبح ساڑھے 10 بجے سے لے کر رات 10 بجے تک سپیکر قومی اسمبلی نے ووٹنگ نہیں کروائی تو چیف جسٹس صاحب نے عدالت کھولنے کا حکم دیا۔ رات پونے 12 بجے سپیکر اسدقیصر نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ اُس کی عمران خاں سے 30 سالہ رفاقت ہے اِس لیے وہ ووٹنگ نہیں کروا سکتا۔ گویا دوستی آئین سے مقدم ٹھہری۔ اب عمران خاں سپریم کورٹ کے ججز سے براہِ راست سوال کر رہے ہیں کہ آخر اُن کا کیا قصور تھا جو رات 12 بجے عدالت لگائی گئی؟

واقعی کپتان کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اُن کی یہ عادت 2014ء کے دھرنے میں پُختہ ہوچکی۔ اُس دھرنے میں اُنہیں اداروں کی مدد حاصل تھی اِسی لیے اُنہوں نے سول نافرمانی تک کا اعلان کر دیالیکن آج جب ادارے اپنے آئینی رول تک محدود رہنے پر اصرار کر رہے ہیں تو خاں صاحب اُن سے ناراض ہیں۔ وجہ چودھری پرویزالٰہی نے اپنے انٹرویو میں بتا دی کہ “نیپی” باندھے عمران خاں کبھی اسٹیبلشمنٹ کی گود سے اُترے ہی نہیں۔ اگر وہ گود سے اُترتے تو کچھ سیاست بھی سیکھ جاتے۔

عمران خاں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ کبھی کسی کے آگے جھکے نہیں۔ جب اُنہوں نے پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیرِاعلیٰ نامزد کیا تو ہمیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ محض چند دن پہلے پرویز الٰہی نے اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھا بچہ قرار دیا تھا۔ اگر اِسے جھکنا نہیں کہتے تو پھر کیا کہتے ہیں؟ حقیقت یہ کہ اپنی “شیروانی” بچانے کے لیے خاں صاحب کسی بھی حد تک گِر سکتے ہیں حتیٰ کہ اگر انارکی پھیلانے سے اُن کی شیروانی بچتی ہے تو وہ اِسے گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی اور بینظیر بھٹو کی شہادت پر کسی نے پاکستانی پرچم جلایا نہ پاسپورٹ۔ میاں نوازشریف کی ملک بدری اور مریم نواز کو ڈیتھ سیل میں بند کرنے پر بھی ایسا کوئی مکروہ احتجاج سامنے نہیں آیا لیکن عمران خاں کی آئینی بَرطرفی کے خلاف قومی پرچم بھی جلائے جا رہے ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ بھی۔

احتجاج ہر کسی کا آئینی حق ہے لیکن ملکی سلامتی کے خلاف بکواس کرنے والے قومی مجرم اور غدار ہیں۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے غداروں کو نشانِ عبرت بنا دینے میں ہی ملک وقوم کی بھلائی مضمر ہے۔ جس کسی نے بھی آئین شکنی کی ہے اُس کے خلاف بلاامتیاز آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

عمران خاں نے کہا “پاکستان آئی ایم ایف کی غلامی سے آزاد ہونے جا رہا تھاکہ سازش کے تحت اُن کی حکومت گرا دی گئی”۔ حقیقت مگر اِس کے برعکس کہ پاکستانی تاریخ کا ریکارڈ بجٹ اور تجارتی خسارہ، بدترین مہنگائی، روپے کی قیمت میں ریکارڈ کمی اور زَرِ مبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر اِس حکومت کی ساڑھے 3 سالہ کارکردگی کے تحفے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان نے 71 سالوں میں 25 ہزار ارب قرضہ لیا جبکہ صاف چلی شفاف چلی حکومت نے صرف ساڑھے 3 سالوں میں 20 ہزار ارب قرضہ لیا لیکن کارکردگی صفر۔ سابق حکومتی وزیر فرخ حبیب نے کہا کہ اُن کی حکومت قومی خزانے میں 22 سو ارب ڈالرچھوڑ کر گئی جبکہ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق یکم اپریل کو قومی خزانے میں 11.3 ارب ڈالر تھے جن میں سے 10 ارب ڈالر دوست ممالک کے تھے۔ اِس کے باوجود اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑائی جا رہی تھی تو اِس سے بڑا جھوٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply