پارلیمان کی بالادستی پر مجھ سمیت بہت سے لوگ خوش ہو گئے تھے۔ عمران خان سے اختلاف کرنے والے مجھ سمیت بہت سے لوگ ان کے اس دعوے کو نہ صرف مان گئے تھے بلکہ ان کی تعریف کی تھی کہ یمن کے خلاف پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کے زیر کمان دینے سے انکار بارے قرارداد میں “غیر جانبدار رہیں گے” کا اضافہ ان کی پارٹی نے کروایا تھا۔ میں نے لکھا تھا کہ بغض معاویہ میں ہی سہی مگر عمران خان نے بالکل درست رویہ اختیار کیا ہے۔
لیکن ہوا کیا؟ یمن کے خلاف اتحاد میں شامل ایک منحنی سے شاہی وفاق یعنی متحدہ عرب امارات کے ایک چھوٹے وزیر محمد انور قرقاش نے پاکستان کو تڑی لگائی کہ “مبہم قرارداد پیش کرنے کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی” اس پر چوہدری نثار احمد خان کا راجپوتی خون جوش میں آیا تو انہوں نے اسے پارلیمنٹ اور پاکستانی قوم کی توہین کیے جانے کے مترادف بیان قرار دیا۔ چلو دوکاندار حکمرانوں میں کوئی تو شجیع نکلا۔ پر جب اگلے ہی روز سعودی عرب سے غیر متوقع طور پر پاکستان کے دورے پر پہنچے وزیر برائے مذہبی امور نے یہ کہا کہ “غیر جانبدار قرار دینا ایک مذاق ہے” تو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گذرنے پائے تھے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ٹی وی سکرین پر صحافیوں کے ایک ہجوم کے سامنے یمن کے معزول کردہ صدر منصور ہادی کی حکومت کو بحال کیے جانے اور حوثی باغیوں کی مذمت پر مبنی “پالیسی بیان” جاری کر کے پارلیمان میں منظور کی جانے والی اس قرار داد کے “پرخچے” اڑا دیے جس میں پاکستان کو اس بکھیڑے میں “غیر جانبدار” قرار دیا گیا تھا۔
ایسا تو ہونا ہی تھا۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے وہ پارلیمان مدم نہیں جس نے انہیں منتخب کیا بلکہ وہ آقا مقدم ہیں جنہوں نے نہ صرف ان کی جان بخشی کروائی تھی بلکہ اربوں ڈالر کا کاروبار کرنے اور صنعتیں لگانے کی اجازت بھی دی تھی۔ جی ہاں، سعود کے نام سے موسوم یہ جزیرہ نما عرب مسجد نبوی اور کعبہ کی موجودگی کی وجہ سے تمام بشمول یمن کے مسلمانوں کے لیے قابل تعظیم ہے تاحتٰی ایران میں بسنے والے شیعہ مسلک کے پیروکاروں کے لیے بھی۔ ہم مسلمان تو تمام ہی انبیاء کو مانتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں، یوں ہم پر عراق، اردن، فلسطین، اسرائیل، شام، یمن تاحتٰی سری لنکا کا تحفظ کرنا بھی فرض بنتا ہوگا کیونکہ ان تمام ملکوں میں کسی نہ کسی نبی کا مرقد واقع ہے۔ روایات کے مطابق حضرت آدم سری لنکا میں دفن ہوئے تھے، واللہ اعلم۔
سعودی عرب کی سرزمین کا تحفظ سب سے پہلے اس کا اپنا فریضہ ہے۔ ہاں البتہ اگر مکہ اور مدینہ کی بات ہے تو ان شہروں کا تحفظ کرنا صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا فرض اولٰی ہوگا۔
معاملہ سارا سیاست کا ہے۔ یمن کے سابق صدر عبداللہ الصالح، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ حوثیوں کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے، کی بھی ایک زمانے میں سعودی عرب نے حمایت کی تھی۔
یمن اور سعودی عرب کا قضیہ اختلاف نظر کے حوالے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ پاکستان کے باسیوں کی اکثریت جذباتی ہے۔ ہم لکھنے والے جو اپنے طور پر سچ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے تمام جذباتی لوگوں کے سب و شتم کا نشانہ بنتے ہیں۔ اب چونکہ سوشل میڈیا موجود ہے، اس لیے بیشتر لوگوں کی آراء اور مزاج کے متعلق معلوم ہو جاتا ہے۔ لوگ یا سعودی عرب کو فوجی امداد دیے جانے کے حق میں ہیں یا اس نوع کی امداد دیے جانے کے مخالف جیسے پاکستان کی پارلیمنٹ، میں اور بہت سے۔ اس کے حق میں حافظ سعیدصاحب اور ان کےحامی اور سینیٹر پروفیسر ساجد میر جیسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ” حقائق کی جہاں تک بات ہے وہ تو درست ہے لیکن موجودہ حالات میں ہم ان حقائق کو نہیں مانتے”۔ اسی طرح ان زعماء کے پیروکار جو “پیچھے امام کے ۔ ۔ ۔” کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے، اگر ان کو بات پسند نہ آئے تو آپ کو “رافضی” قرار دے ڈالیں گے اگرچہ انہیں بالکل پتہ نہیں ہوگا کہ “رافضی” کیوں، کیا او کون تھے۔ اگر کسی شیعہ کو بات پسند نہیں آئے گی وہ آپ کو “خارجی” ہونے کی گالی دے گا، اس کے خیال میں ایران اور شیعہ مسلک کی مخالفت کرنے والا ہی خارجی ہوتا ہے۔
اگر یمن سعودی عرب قضیے میں آپ بلا وجہ اور بلا ثبوت ایران کو دوش نہیں دیں گے تو آپ کو ” گردن زدنی شیعہ” اور”ایران کا پالتو کتا” جیسے خطابات سے نوازیں گے، چاہے آپ اسی مسلک کے پیروکار کیوں نہ ہوں جو آپ کو گالیاں دینے والے کا ہے۔ اختلاف نظر کے اظہار میں اخلاقیات کو بالکل ہی پھلانگ جائیں گے۔ استفسار کریں گے کہ ایران کو کیوں بخش دیا؟ کہانی بہت مختصر ہے، بہار عرب کی لہر میں یمن میں احتجاجات شروع ہوئے، تیس سال سے زیادہ عرصے سے حکمران علی عبداللہ صالح کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کو سونپ دیا جو بعد میں صدر منتخب ہو گئے۔ پھر بغاوت ہو گئی اور صدر کو ملک سے بھاگنا پڑا۔ ٹھیک ہے شاید ایران نے باغیوں کو اسلحہ دیا ہو، ویسے تو اس کی ضرورت تھی نہیں کیونکہ یمن میں ہر شخص کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔ یک لخت سعودی عرب نے عرب اتحاد بنا کر یمن پر فضائی حملے کرنے شروع کر دیے جن کے نتیجے میں عام لوگ مرنے لگے جن میں بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ بم شیعہ، سنی، حوثی یا غیر حوثی کو نہیں دیکھتا، سب کو مارتا ہے۔ مجھے بلاوجہ لوگوں کا مارا جانا پسند نہیں چاہے وہ شیعہ باغی ہوں یا سنی بنیاد پرست۔ سب انسان ہیں۔ یہ حاکم لوگ اپنی حکمرانی کی حفاظت کی آڑ میں ہمیشہ عام انسانوں کو بھینٹ چڑھایا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں آپس میں لڑواتے ہیں۔ ان کی مالی امداد تنظیموں اور ان کی قیادت کو ملتی ہے لیکن ان کے حق میں بولتے بلکہ اپنی زبان عام پیروکار خراب کرتے ہیں۔
حقائق سے ناآگاہی جذباتی ہونے کی بنیاد ہوتی ہے۔ مگر حقائق آشنا ہونا مشکل ہوتا ہے، آپ کو ہر جانب کے موقف ، ہر جانب کی شرارتوں اور ہر جانب کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر اختلاف نظر کا اظہار کرنا ہوتا ہے، پر ایسا کون کرے؟ ایک جانب کی صف میں کھرے ہو کر دوسرے جانب کی صف پر تیر چلائے جاؤ اور بس۔ اس طرح آپ نے اختلاف نظر کے اظہار کا حق پورا کر دیا۔ ایسے رویے پر روؤں یا دکھ بھرا قہقہہ لگاؤں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں