تاریکی۔۔محمد جنید اسماعیل

وہ ایک تعلق جس کا شاخسانہ کہیں دور طے ہوا ہو اور جس کے ثمرات کہیں اور، جس کا شجر کہیں اور لگایا گیا ہو اور جس کا پھل کہیں اور گرا ہو ،وہ ایک تعلق جس کی آبیاری کرتے کرتے ہمارے ہاتھ چھلنی ہوئے ہوں اور مہندی کہیں اور لگی ہو ،وہ ایک بندھن جس کو بندھن ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ تمہارے نزدیک تم کسی ظالم ،سفاک انسان کی محبت کی قید میں تھی اور اس سے اب کہیں جا کے نجات ملی ہے۔اچھا چھوڑو، میں تو ویسے بھی ایسے وہم کا مارا ہوں تمہارے نزدیک میں تو فقط ایک گویّا ہوں اور گویّا چیختا چلاتا رہے وہ اس کا فن تو ہوسکتا ہے اس کے  اندر کی آواز نہیں۔سارا جہاں میری آواز کی قیمت لگاسکتا ہے کوئی احساسات کی قیمت نہیں لگاسکتا ،وہ احساسات فقط تمہارے لئے بے مول تھے ،باقی سب کو تو ان احساسات کے پاس سے بھی نہ گزرنے دوں۔

جانتی ہو ؟
وہ بچپن کے دن جب ایک بند کمرے کی تاریکی میں میری قسمت کا دِیا روشن ہوا تھا ،جب بند کمرے نے پہلی بار میری آواز اور میری قسمت کا دروازہ کھولا تھا ،وہی تمہاری پہلی واہ نے میرے لئے مداحوں کی لائنیں لگوادی تھیں ۔
جانتی ہو ریس کے گھوڑے کا مالک اس گھوڑے کو کبھی نہیں بیچتا جو اس کو پہلی ریس جتوادے تو میں اپنے اس خوش نصیب “دھاگے “کو کیسے بھول سکتا تھا جس سے میری جیت کا آغاز ہوا تھا۔جانتی ہو ہندو سادھوؤں کا خیال تھا کہ بعض اوقات دھاگے کسی کے لگاۓ گۓ جمپ میں اُچھال کا باعث بن سکتے ہیں ۔لیکن وہ دھاگہ تو میری گردن کا طوق بن گیا ہے جس کو میں نے گلے میں فقط اس وجہ سے پہنا تھا کہ تمہاری دی گئی  انگوٹھی کو سنبھالا جاسکے وہ رات میری خوشی کی آخری رات ثابت ہوئی تھی جب مئی  کے اواخر میں ایک گرم شام کو میں نے زندگی کا وہ حسین لطف لیا تھا جیسا لطف تخلیقِ کائنات کے وقت پہلی دو روحوں کو وصال کے  وقت ملا ہوگا۔۔یاد ہے جب چوبیس مئی 2016کے دن دو بچھڑے ہوئے پنچھی اتنے سال کے بعد ملے تھے لیکن ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے جنت سے نکالے گئے ستائیس سال بیت گئے ہوں اور پھر ایک ملاقات طے ہوگئی ہو جس کے بعد فقط وصال ہی وصال ہو ،
وہ وعدے بھی تو تمہیں یاد ہونگے ناں
لیکن
“اب یاد آتا ہے کہ وہ وعدے تھے محض وعدے ”

اچھا تمہیں ایک بات بتاؤں انسان پریشانی میں تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن الجھن میں کبھی نہیں رہ سکتا ۔ تم نے کافی عرصے سے مجھے الجھن کی ڈوری سے باندھ رکھا ہے اور میری ہمت دیکھو کہ اب بھی اس آس کے سہارے جی رہا ہوں
“خدا کرے زبانِ خلق کو نقارہِ خدا نہ سمجھا جائے ”

وہ جب پہلی دفعہ مجھے رقابت کی بو محسوس ہوئی تھی ،مجھے ایسے لگنے لگا جیسے ایک آدم خور flesh پر اپنی حسرت مٹا کر جارہے ہوں اور وہ بُو میرے اندر کو بھی کسی ایسی بیماری سے بھرگئی،جس کو میرے آس پاس کے لوگوں نے “بے اعتباری “کا نام دیا تھا۔۔میں نے پہلی دفعہ اس بیماری کا نام سنا تھا لیکن لوگوں کا ماننا یہی ہے کہ اس بیماری کے متاثرہ شخص کو کسی بند کمرے میں پابندِ سلاسل کردیا جانا چاہیے کیونکہ ایسا انسان کبھی بھی کسی کو بھی اپنی نظروں سے گرا کر بے مول کرسکتا ہے۔ لیکن میں نے تو تمہیں بے مول نہیں کیا تھا پھر بھی ۔۔جس طرح ایک باؤلا جانور یا کوئی  پاگل چیز اپنے مالک ،اپنے عزیز کی پہچان رکھتا ہےاس طرح میں نے بھی فقط تمہیں اپنے پاگل پن سے استثنیٰ دیا ہوا تھا ۔ اور پھر یاد کرو وہ دن جس دن میرا چیخ چیخ کر گلہ بیٹھ گیا تھا ۔میں نے تمہیں کون سا واسطہ نہیں دیا تھا ۔ہر واسطے اور ہر طرح یقین دہانی کے باوجود تمہارا ایک رٹا رٹایا جملہ(تم اپنے کیئریئر پر توجہ دو) کتنا اذیت ناک تھا تم اس تکلیف کو ماپ سکتی ہو ؟مان لیا کہ تم ایک قابل ،لائق فائق لڑکی ہو لیکن تم اور تمہاری سائنس کبھی بھی اس تکلیف کو نہیں ماپ سکوگے جو محبوب کو دور پاکر محسوس ہوتی ہے ،تمہاری فائر بریگیڈ کی ساری فوج بھی،ساری ٹیکنالوجی بھی اُس آگ کو بُجھانے سے قاصر ہے جو محبوب کو کسی رقیب کے ساتھ دیکھ کر بھڑک اٹھتی ہے وہ کرب جو محبوب کے دل سے نکلنے پر محسوس ہوتا ہے وہ کرب تو سائیکالوجی کےسارے ماہر حضرات بھی بتانے میں بے بسی محسوس کرتے
ہیں۔جانتی ہو سارے طبیب حضرات بھی وہ اکسیر تلاش نہیں کرسکے جو کسی کی آنکھوں کو تب لگایا جاسکے جب وہ محبوب کی یاد میں لال ہوجائیں۔

پہلی بار ایک مسیحا کو کسی کے دردکم کرنے کی بجائے درد بڑھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اچھا تمہیں ایک مزے کی بات بتاؤں ؟میں پہلے جب بھی کسی کہانی کو سنتا تھا یا کسی مووی کو دیکھتا تھا تو میں تمہاری بانہوں کے حصار میں رہنے کی وجہ سے ہمیشہ ہی ہیرو اور ہیروئین کے ملنے کی دعا کیا کرتا تھا
میرے نزدیک مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ
All favorite characters (protagonists ) are destined to meet ۔
اور تمام بُرے کردار اکیلے رہ جانے کیلئے ہوتے ہیں
لیکن پتا ہے اب میں کیا کرتا ہوں ؟میں اب دعا کرتا ہوں کہ میں ہجر کے وہ لمحے دیکھوں اور دیکھوں کہ کس طرح ایک مضبوط،توانا اور دلیر شخص ،an absolute hero جس کو تمام خصوصیات اور خوبیوں کا مرقع بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ کیسے محبوب کی جدائی پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہوتا ہے ۔میں دیکھ سکوں کہ کیسے ایک جنگجو شخص جس نے دنیا کو فتح کرنے کا عزم لیا ہوتا ہے وہ ایک پسلی کی تخلیق کیلئے گھنٹے ٹیک کر فریادیں کر رہا ہوتا ہے
میں دیکھوں کہ کیسے
(Greek mythical character)Paris
جس پر ساری دیویاں دیوانی ہوتی ہیں وہ ایک عیار ،مکار اور ہر دوسرے مرد کو محبت کے دلاسے دینے والی عورت کیلئے ماردیا جاتا ہے اور وہ خود اس تقدیر کو قبول کرلیتا ہے

میں دیکھ سکوں کہ کیسے Achilles جس کی طاقت اور حشمت سے دیوتا بھی خوف زدہ ہوتے ہیں وہ Helen جیسی مکار عورت کی نظروں کا شکار ہوتے ہوتے بچتا ہے ۔
میں دیکھ سکوں کہ کنگ ایڈورڈ کیسے Wallis Sampson کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے،کیسے اپنے خونی رشتوں سے بغاوت موہ لیتا ہے۔۔اور مزے کی بات یہ کہ میں خود کو اکیلا کرکے ولن گنوائے جانے کے خوف سے ہنسنے لگتا ہوں ۔میں چیخیں مار کر کہتا ہوں کہ اس المیے میں ،میں اکیلا نہیں ہوں ،میں خود سے ہم کلام ہوکر یہ کہہ سکتا ہوں

“ایک تم ہی نہیں اس دل پر قربان ہزاروں ہیں ”

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہر رات کے پچھلے پہر ایک عہد خود سے کرتا رہتا ہوں کہ تم میرا وہ خزانہ ہو جس کی چابی گم کردی ہے میں نے ،اب اسی چابی کو ڈھونڈنے کی کوشش میں لگا ہوں اور تمہارے اس طرح دور جانے کے بعد کم ازکم اتنا جان چکا ہوں کہ دنیا کا ہر خزانہ چاہے وہ دولت کا ہو ،خوشیاں کا ہو ،مسکراہٹوں کا ہو یا پھر کسی کی ملکیت کا ہو کیسے کھُل سکتا ہے؟

 

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply