ابّا جان۔۔سکندر پاشا

ہم خدا کے بعد کسی سے اگر ڈرتے ہیں تو وہ ہمارے ابا جان ہیں، سب کے باپ تو ہوتے ہیں پر ہمارے ابا جان تو ہٹلر قسم کے ہیں۔ ہم پر بیتی ہر اک کہانی اگر لکھیں تو ابا جان کے سخت فیصلوں پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن دوسروں کے معاملے میں ہمیشہ ابا جان کو اپنا آپ قربان کرتے دیکھا ہے۔

ایسا بالکل نہیں ہے کہ اولاد کے حق میں سخت مزاج واقع ہوئے ہیں اور دوسروں کے معاملے میں نرم، بلکہ ابا جان کے سخت فیصلے اور ہٹلر بازی کی بدولت ہی تو ہم آج اس لائق ہوئے ہیں کہ اپنے خاندان میں پہلے حافظ و عالم بنے اور ایک پڑھے لکھے جوان کے طور پہ جانے جاتے ہیں ورنہ ہم تو آج بھی ڈرتے ہیں کہ کوئی ہمارے کرتوت بارے ابا جان سے غیبت کرجائے اور رات ہمیں گھر سے باہر گزارنی پڑ جائے۔

ہم باپ کے بڑے بیٹے بھی ہیں سو ہم پر ہمیشہ کڑی نگاہ رہی، ابا جان کی اولین ترجیح ہمیں انسان بنانے کی تھی، بیٹے تو ہم ویسے بھی تھے۔ اس لئے جہاں ہمارے بارے میں سخت فیصلہ کرتے تھے وہیں ہفتہ بعد ہمیں پاس بٹھا کر ہماری غلطی، آوارگی پر  چپیڑیں مارنے کی وجہ بھی بتا دیتے تھے۔ گویا ہمیں ہمیشہ شرمندہ کیا گیا  ، لیکن ہم غلطی سے سدا کے ڈھیٹ واقع ہوئے تھے اور تاحال کچھ کچھ ہیں۔

پچھلے دنوں کی بات ہے، ابا جان کے سامنے صحن میں بیٹھے تھے، گویا ہوئے: “مولوی صاحب! عالم فاضل تو بن گئے ہو، اب تخصص کا ارادہ بھی رکھتے ہو نا؟”
پہلے پیچھے مڑ کر بھاگنے کے لئے راستہ دیکھا اور پھر ہم نے جواب دیا کہ: “ابو جی! الحمدللہ عالم فاضل تو بن گئے ہیں لیکن تخصص وہ لوگ کرتے ہیں جن کا علم ناقص ہو اور ہم تو علامہ۔۔!”
ابھی ہم بات مکمل نہ کرپائے تھے کہ ابا جان کا ہاتھ جوتی کی طرف بڑھتا دیکھ کر جان بچانے میں عافیت سمجھی لیکن ابو جی کی جوتی ہمارے کانوں کو چھوتے چھوتے رہ گئی۔

خیر کہاں سے کہاں کو ابا جان کی غیبت میں نکل گئے، کہتے ہیں کہ کسی کی غیبت کرنے سے آپ کی نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں چلی جاتی ہیں۔ چلو غیبت ہی سہی اپنے ابا جان کے نامہ اعمال میں نیکیوں میں اضافہ کرنے کا سبب تو بن ہی گئے۔ تو بات یہ ہے کہ ہر والد ایک ذمہ دار انسان ہوتا ہے، جو ذمہ دار نہ ہو وہ صرف والد ہے پر انسانیت کا عنصر اس میں نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابا جان امیر کبیر آدمی شمار کئے جاتے تھے لیکن اپنوں کے لئے سب کچھ چھوڑ کر اپنے قبائلی علاقے سے کراچی کی جانب ہجرت کی، خون پسینے کی کمائی سے ہمارا بھرم رکھا اور اپنی اولاد کے لئے ایک روشن مستقبل کے خواہاں تھے تو مزدوری کیا کرتے تھے اور یہیں ہم پلے اور بڑھے  اور آج ابا جان ہم سے وہ خواب پورے کروانا چاہتے ہیں جو کبھی انہوں نے اپنے لئے دیکھے تھے۔
الغرض ایثار و قربانی کا سراپا مجسم کوئی ہے تو وہ والد ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply