اقبال اُٹھ گیا ۔۔ بنت مہر

علامہ اقبال سے فلسفے کے کسی استاد نے پوچھا کہ آپ کے پاس خدا کا وجود ثابت کرنے کی کیا دلیل ہے ،تو آپ نے جواب دیا :ـ”فقط یہی کہ محمد ﷺ نے ایسا فرمایا ہے”۔اقبال آقا ﷺ کے عشق میں گرفتار تھے اور عشق انسان کو سوال جواب یا شکوہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،عشق میں من و عن تسلیم کیا جا تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اقبال اپنی شاعری میں بھی اللہ پاک سے سوال و جواب کرتے تو پائے جاتے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کے لیے ان کے قلم سے صرف عقیدت و احترام اور مدح و ستائش ہی کے الفاظ نکلے۔

ایک بار ایک ملاقاتی آپ سے ملاقات کے لیے آیا تو اقبال کو آبدیدہ اور پریشان پایا، وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتا یا کہ ایک نوجوان ملاقات کے لیے آیا تھا، دوران گفتگو آنحضور ﷺ کو جناب محمد ﷺ ، جناب محمد ﷺ کہتا رہا، میں اس بات پر پریشان ہوں جس قوم کے نوجوانوں کی یہ حالت ہے اس قوم کے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہو گا۔

اقبال کو نوجوان نسل کی اپنے عظیم پیغمبر سے دوری رُلاتی تھی تو آقا کی شان میں الفاظ کا نامناسب چناؤ برہم کر دیتا تھا۔اقبال اپنے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہونے والے پہ اس قدر برہم ہوتے کہ غصے سے پھٹ پڑتے۔ایک بار کسی نے اقبال کی محفل میں آقا ﷺ کی شان اقدس میں ایسے الفاظ ادا کیے جو گستاخی کا عنصر لیے ہوئے تھے تو آپ نے اسی وقت اسے سخت سست سنا کر  اپنی محفل سے بھی نکلوا دیا۔اقبال کہا کرتے تھے:” میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے پا س آئے اور کہے کہ تمہارے پیغمبر نے ایک دن میلے کپڑے پہن رکھے تھے “۔

یقیناًاگر آج اقبال حیات ہوتے تو گیرٹ ویلڈر جیسے کسی گستاخ کی ہمت نہ ہوتی افسوس یہ ہے کہ اقبال جیسے مردِ عشق نا پید ہو گئے اور ہمارے دلوں میں محبت رسول ﷺ کے چراغ کی لو مدھم سے مدھم ہوتی جا رہی ہے اگر ہم لوگ بھی اقبال جیسے عاشق رسول ہوں تو کسی گستاخ کی ایسی ناپاک جسارت کرنے کی ہمت نہ ہو۔

اقبال کو امت کی نا گفتہ بہ حالت کے ساتھ ساتھ امت پہ ڈھائے جانے والے مظالم بھی بے چین رکھتے تھے۔فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اقبال کی بے اختیار یاد آتی ہے جن کی زندگی میں وہ دن سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا جس دن وہ فلسطین کانفرنس میں شرکت کے لیے یروشلم پہنچے اور بیت المقدس کے قریب ایک ہوٹل میں قیام کیا۔یہ قیام مؤتمر اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے تھا۔اقبال نے اجلاس کے بعد مسجد اقصیٰ میں قیام کیا اور نعت و نعت خوانی کی محافل میں بھی شرکت کی ۔آخر میں اقبال نے دیگر شرکاء کے ساتھ مل کر ایک عہد کیا کہ وہ اقصیٰ سمیت تمام مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔رائل کمیشن کی رپورٹ کے خلاف 3جولائی 1937کو ایک بیان جاری کیاجس میں انہوں نے سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کے قیام کی برطانوی کوششوں کی سخت اور کھلے الفاظ میں مذمت کی۔ اپنی وفات سے چند ماہ قبل اکتوبر 1937میں اقبال نے قائد اعظم کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے مسئلہ فلسطین پر اپنی بے چینی و اضطراب کا اظہار کیااور امید ظاہر کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ فلسطین پر صرف قراردادیں منظور نہیں کرے گی بلکہ کچھ ایسا بھی کرے گی کہ فلسطینی لوگوں کی مدد ہو سکے۔ اس خط پر ردعمل دیتے ہوئے قائد نے فلسطینیوں کے لیے فنڈ قائم کیا اور 3دسمبر 1937کو پورے ہندوستان میں یوم فلسطین بھی منایا گیا۔

زندان ِ فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاک فلسطین پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں اہل عرب کا

اقبال کو نہ صرف فلسطین بلکہ پوری امت کا غم بیقرار رکھتا تھا۔مسلمانوں کے زوال کا درد ہی انہیں شاعری کی طرف لے کر آیا امت کی بربادی کے لیے وہ رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں دکھی دل کے ساتھ استغاثہ پیش کرتے ہیں۔

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لذت آشوب نہیں بحر عر ب میں
پوشیدہ ہے جو مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمدﷺ
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے

اقبال کو آخری دنوں میں اپنے محبوب آقاﷺ کی یاد بیقرار رکھتی تھی ۔وفات سے کچھ عرصہ قبل اقبال نے ایک پیر صاحب کو حج کی تیاری کرتے دیکھا تو آپ کا  شوق ِسفرِ حجاز اور بڑھا اور تیاریوں میں بھی شدت آ گئی ۔اور اس مقصد کے لیے “ارمغان حجاز”لکھی، جو رسول اللہ ﷺ سے ان کی محبت و عقیدت کے ثبوت مہیا کرتی ہے۔مرض وفات میں آپ کی آنکھوں کی بینائی بھی بہت کم ہو گئی تھی اور بیماری کی شدت بھی ایسی تھی کہ تلاوت قرآن چھوٹ جاتی لیکن آپ کسی سے کہہ کر تلاوت سنتے اور اس دوران آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے رہتے۔آپ نے اپنے اس درد کو شعر میں یوں پرو دیا:
در نفس سوز جگر باقی نماند
لطف قرآن سحر باقی نماز
(میری سانس میں جگر کا سوز باقی نہ رہا، صبح کے وقت تلاوت قرآن کا لطف بھی جاتا رہا)

مرض وفات میں رات گئے تک گریہ و زاری کرتے رہتے کسی نے سبب پوچھا تو کہا:”خدا جانے اس قوم کا حشر کیا ہو گا مجھے اس کا خیال رہ رہ کر ستاتا ہے”۔وفات سے چند منٹ قبل اقبال نے اپنا آخری کلام پیش کیا جو وقت وصال آپ کے ہونٹوں پر کسی ورد کی طرح جاری تھا۔

سرودرفتہ باز آید کہ ناید
نسیم از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارے اس فقیرے
دگرد انائے راز، آید کہ ناید
(خدا جانے کہ وہ پہلے والا دور آئے گا یا نہیں، حجاز کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلے گی یا نہیں، اس فقیر کا آخری وقت آ گیاہے، خدا جانے کوئی اور دانائے راز آئے گا یا نہیں)

اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ تو چلے گئے لیکن ایسا خلا چھوڑ گئے جسے کوئی نہ پر سکا نہ کر پائے گا۔اقبال کی کمی سے دل بوجھل اور آنکھیں اشک بار ہیں ۔لیکن ان کا پیغام روح کو تروتازہ رکھتا ہے۔اقبال آج بظاہر ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن اپنے الفاظ کے ذریعے وہ ہمیشہ دلوں میں موجودرہیں گے اور ان کے الفاظ مشعل راہ کا کام دیتے رہیں گے ۔ان شاء اللہ

Advertisements
julia rana solicitors

ملک سخن کا تاجور اٹھ گیا
دنیا سے اہل علم کا اقبال اٹھ گیا
اے مرگ ناگہاں تجھے کیا کہہ کے روئیں
دنیا سے اعتبار مہ و سال اٹھ گیا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply