موسمانہ خواب۔۔نصرت جاوید

عمران خان صاحب کی شخصیت کرشماتی اور مقناطیسی کشش کی حامل ہے۔ ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کے ماہرانہ استعمال سے وہ اسے اپنا پیغام پھیلانے کے لئے مؤثر کن انداز میں استعمال بھی کرتے ہیں۔ بدھ کے روز اس ضمن میں انہوں نے ٹویٹر کی سپیس (Space)والی سہولت کو استعمال کیا۔ ناظرین کے نئے ریکارڈ بنادئے۔

فی الوقت میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے افراد سے ہوا مکالمہ پاکستان میں عملی سیاست کے حقائق پر کس قدر اثرانداز ہوتا ہے۔ محض اتنا یاد دلاتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہوں کہ فرانس کا ایک متعصب ناول نگار ہے۔ ایرک زیمور (Eric Zemmour)اس کا نام ہے۔ یہودی النسل ہے مگر خود کو نام نہاد فرانسیسی تہذیب کا یک وتنہا محافظ سمجھتا ہے۔ اسلام کو اس نے مذکورہ تہذیب کا حتمی دشمن ٹھہرایا۔

اپنے مضامین کے ذریعے اس نے سفید فارم فرانسیسیوں کی بہت بڑی تعداد کو قائل کررکھا ہے کہ ماضی میں فرانس کی نو آبادیاں رہے تیونس والجزائر وغیرہ جیسے ممالک کے مسلمان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یورپ منتقل ہورہے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کرتے۔ روزگار ڈھونڈنے کے بجائے حکومتی وظائف پر ا نحصار کرتے ہیں۔ حکومت انہیں سستی رہائش اور مفت طبی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے۔

“گوروں ” سے جمع کئے ٹیکس پر پلتے “مفت خور مسلمان” اب یہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ بالآخر وہ فرانس میں اکثریت بن جائیں گے۔ ممکنہ اکثریت مل جانے کے بعد وہ سیکولر اور لبرل ازم کی تاریخی علامت تصور ہوتے فرانس میں “شریعہ” نافذ کردیں گے۔

زیمور کی لکھی کتابیں ریکارڈ ساز تعداد میں بکتی ہیں۔ ریٹنگز کی ہوس کے مارے ٹی وی چینل اسے اپنے پروگراموں میں گفتگو کے لئے مدعو کرنے کو بے چین رہتے ہیں۔ اپنی حیران کن مقبولیت پر اعتماد کرتے ہوئے وہ فرانس کے حال ہی میں ہوئے صدارتی انتخاب میں امیدوار بن گیا۔ اسے مگر 8فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں مل پائے۔

اس کے نظریات نے مگر تعصب کی جو آگ بھڑکائی ہے اس نے فرانس میں رواداری کا جنازہ نکال دیا۔ وہاں کی دونوں بڑی جماعتیں کائیاں نسل پرستی کو راغب ہوچکی ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کی کشش صدارتی انتخاب ہار جانے کے باوجود اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس کے مداحین کی اکثریت کو کامل اعتماد ہے کہ وہ 2024ء کے انتخاب میں دوبارہ کھڑا ہوکر واضح اکثریت سے امریکہ کا صدر بن جائے گا۔

سوشل میڈیا کی حرکیات کو کمال مہارت سے سمجھ کر استعمال کرتے ہوئے عمران خان صاحب بھی اپنے مداحین کے ذہنوں پر سحر طاری کئے ہوئے ہیں۔ مذکورہ سحر کی بدولت ان کے مداحین بضد ہیں کہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے تئیں باہم مل کر عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ نہیں کیا۔ درحقیقت امریکہ ان کی آزاد خارجہ پالیسی سے گھبرا گیا تھا۔ واشنگٹن نے بالآخر انہیں اقتدار سے فارغ کروانے کی سازش تیار کی اور پاکستان کے طاقت ور اداروں میں بیٹھے اہم افراد اس کے سہولت کار بن گئے۔

امریکی سازش کا ڈھول پیٹنے کی وجہ سے ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں یہ بحث ہی نہیں ہورہی کہ اگست 2018ء سے اپریل 2022ء کے دوران عمران خان صاحب کا اندازِ حکومت کیسا تھا۔ وہ معاشرے کو مستحکم وخوش حال بنانے میں مددگار ثابت ہوا یا نہیں۔ عام آدمی کی روزمرہّ زندگی بہتر ہوئی یا نہیں۔ تحریک انصاف کے سیاسی مخالف بھی مؤثر انداز میں یہ سوالات اٹھا نہیں پائے ہیں۔ عمران خان صاحب کا دیا پیغام ہی ہر طرف گونج رہا ہے۔

اپنے جارحانہ رویے اور میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی بدولت عمران خان صاحب اپنے مداحین کے ذہنوں میں اب یہ بات بٹھاچکے ہیں کہ انہیں ایک “گلاسٹرا” نظام ورثے میں ملا۔ وہ اس کی وجہ سے “چوروں اور لٹیروں ” کو عبرت کا نشان نہیں بناپائے۔ کڑے احتساب کو یقینی بنانے کے لئے لازمی تھا کہ ان کے پاس سلطانوں جیسے اختیارات ہوتے۔ ایسے اختیارات میسر ہوتے تو وہ شاید شہباز شریف جیسے “عادی مجرموں ” کو کسی کنوئیں میں پھینک کر بھول جاتے۔ “چور اور لٹیرے” اقتدار میں واپس نہ آتے۔

ہمارے متوسط طبقے میں کئی دہائیوں سے اُبلتی “کڑے احتساب” کی خواہش کو اب وہ یہ تاثر پھیلانے کے لئے استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ پارلیمانی نظام پاکستان جیسے ملکوں میں فقط “چور اور لٹیروں ” ہی کو اقتدار میں لاتا ہے۔ یہ “انگلوسیکسن” نظام ہے۔ برطانیہ میں تو چل سکتا ہے مگر پاکستان میں نہیں جو “اسلامی” ہونے کی وجہ سے اپنی ترکیب میں خاص ہے۔

پارلیمانی نظام کو اپنی کوتاہ پروازی کا سبب ٹھہراتے ہوئے عمران خان صاحب اور ان کے مداحین یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ بنگلہ دیش بھی ایک اسلامی ملک ہے۔ جب پاکستان کا حصہ تھا تو بہت غریب اور پسماندہ تھا۔ الگ ملک بن جانے کے بعدبھی کم از کم تین دہائیوں تک “بھکاری کا کاسہ” نظر آتا رہا۔ اس کے بانی شیخ مجیب الرحمن نے بھی کامل اختیارات کے ساتھ وہاں کا صدر بننا چاہا تھا۔ فوجی بغاوت کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔

اس کے بعد بنگلہ دیش کو کئی برسوں تک مارشل لاء کے ذریعے چلانے کی کوشش ہوئی۔ ہر طرح کے تجربے سے گزرنے کے بعد بالآخر پارلیمانی نظام ہی پر اکتفا کرنا پڑا اور ان دنوں بنگلہ دیش کی شرح نمو جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی کے اعتبار سے اس خطے کا سب سے بڑا ملک بھارت بھی اس ضمن میں مقابلہ نہیں کرپارہا۔

ترکی کے اردوان نے بھی پارلیمانی جمہوریت کی حدود وقیود میں رہتے ہوئے ہی اپنے ملک میں خوش حالی کی رونق لگائی تھی۔ یہ رونق لگادینے کے بعد وہ صدارتی نظام کی جانب مائل ہوا۔ آئینی تبدیلیوں کے بعد ترکی کا صدر بنتے ہی “سلطان” ہوگیا۔ اس کی “سلطانی” مگر اب ترکی کو معاشی ابتری اور بدحالی کی جانب دھکیلنا شروع ہوگئی ہے۔

عمران خان صاحب کے مداحین مگر مذکورہ بالا حقائق پر توجہ ہی نہیں دیں گے۔ انہیں گماں ہے کہ “امریکی سازش” کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے جانے کے بعد ان کے دیومالائی ہیرو کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ فوری انتخاب کروادئے جائیں تو ان کی جماعت دو تہائی اکثریت کیساتھ اقتدار میں لوٹ آئے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

متوقع اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان صاحب ہمارے نظام کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی بنادیں گے۔ کامل اختیارات کے ساتھ “صدر عمران خان” کڑے احتساب کو بآسانی یقینی بنادیں گے۔ جو خواب دیکھا جارہا ہے وہ مجھ جھکی کی نگاہ میں نہایت معصومانہ ہے۔ کاش اس کی تعبیر فراہم ہوسکے۔نصر

Facebook Comments

نصرت جاوید
Nusrat Javed is a well-known Pakistani columnist, journalist, and anchor who writes for the Express News, Nawa e Waqt, and Express Tribune.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply