زیرجامہ گروی رکھ دیا۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ایک طرف پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اہم واقعہ ہوا کہ میں یمنیوں سے لڑنے کی خاطر پاکستان سے فوج کو سعودی عرب بھجوائے جانے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کو دھمکی دے ڈالی کہ پاکستان کو، مبہم فیصلہ کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ تیسری جانب دفاع حرمین شریقین کے نام سے کی گئی کانفرنس میں سعودی عرب کے کاسہ لیس جہادیوں اور مولویوں نے اپنی ہی ریاست کو بے نطق سنا ڈالیں۔
مبصرّین کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں منظور کردہ قرار داد کو جواز بنا کر پاکستان کی ہئیت مقتدرہ بلکہ وزیراعظم اور فوج کے سربراہ نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وقت لیا ہے۔ کوئی پتہ نہیں کہ کب چپکے سے دستے بھیج بھی دیں۔ مشترکہ پارلیمانی قرار داد سے پہلے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا تھا کہ مختلف مدوں میں پاکستان کی فوج کے ایک ہزار کے قریب اپلکار پہلے ہی سعودی عرب میں ہیں۔ کسی اور نے سعودی عرب میں پہلے سے موجود پاکستانی فوج کا حجم ایک بریگیڈ بتایا تھا جو ایک ہزار سے کئی گنا زیادہ تعداد بنتی ہے۔
عدنان کاکڑ لکھتے ہیں :” اس وقت سعودی عرب دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ اس کی فوج کی تعداد سوا دو لاکھ ہے اور ریزرو اس کے علاوہ۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب سعودی فوجی سروس کے قابل ہیں۔ بارہ سو سے زیادہ ٹینک ہیں۔ پانچ ہزار سے زیادہ آرمڈ فائٹنگ وہیکل ہیں۔ پونے سات سو جنگی طیارے ہیں۔ گیارہ جنگی بحری جہاز ہیں۔
امارات کی فوج کی تعداد پینسٹھ ہزار ہے۔ ساڑھے پانچ سو ٹینک ہیں اور بائیس سو آرمڈ گاڑیاں۔ فضائیہ پانچ سو طیاروں اور ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ہے۔ اومان کی فوج کی تعداد بہتر ہزار ہے۔ دو سو ٹینک ہیں اور ایک سو جنگی طیارے۔
دوسری طرف یمن کی باقاعدہ فوج کی تعداد صرف چھیاسٹھ ہزار تھی جبکہ ستر ہزار ریزرو میں تھے۔ حوثی قبائیل کے لڑاکا لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ ان کے پاس فضائیہ نہیں ہے۔ یمن میں ٹینکوں کی کل تعداد بارہ سو تھی اور آرمرڈ گاڑیوں کی تعداد تین ہزار۔
پھر خلیجی تعاون کونسل کے پانچ لاکھ کے قریب فوجیوں، دو ہزار کے قریب جدید ترین ٹینکوں، دس ہزار کے قریب بکتر بند گاڑیوں، پندرہ سو کے قریب جدید ترین جنگی طیاروں اور درجنوں بحری جنگی جہازوں کو ایک لاکھ بے قاعدہ اور بے سر و سامان لڑاکا لوگوں سے لڑاتے ہوئے عربوں کو کیوں غش پڑ رہے ہیں؟” (یہ اقتباسات ان کے ایک فکاہیہ کالم سے نقل کیے گئے ہیں)
کسی نے ان کے اس کالم پر جو ایک مراثی سے موسوم لطیفے پر مبنی مشورے پر تمام ہوتا ہے، تبصرہ کیا ” پاکستان اپنا زیرجامہ جھاڑے تو ایسے کئی ملک جھڑ کے گرپڑیں گے”۔ مگر جب آپ نے اپنا زیر جامہ ہی گروی رکھ چھوڑا ہو تو اسے بھی آپ اپنی مرضی سے نہیں جھاڑ سکتے چاہے جنگھاسہ میں کتنی ہی کلبلی یا خارش کیوں نہ ہو۔
بلیک میلنگ ضروری نہیں کہ رقم یا جائیداد اینٹھنے کے لیے کی جاتی ہو۔ بلیک میلنگ کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں۔ ان سب اقسام کے ساتھ کسی کے ساتھ جذباتی وابستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا ہوتی ہے۔ بیویاں اپنی اولاد کے نام پر خاوندوں کو بلیک میل کرتی ہیں۔ مائیں اپنے دودھ اور ممتا کو جواز بنا کر بچوں خاص طور پر بیٹوں کو بلیک میل کرتی ہیں۔ اسی طرح مذہبی جذبات اور مقدس مقامات کو گروہ پارٹیاں اور ملک اپنے مفادات کے لیے لوگوں اور تاحتٰی حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کاکڑ صاحب نے عربوں کی جس پانچ لاکھ فوج کا ذکر کیا ہے وہ وردی پر توپ (عرب چوغہ) کو اور اسلحے پر ناؤنوش کو ترجیح دیتی ہے۔ جھلستے صحرا کے میدان جنگ میں جانے کی بجائے وہ اپنے ایرکنڈیشند خیموں میں پاؤں پسار کر گہوے (قہوے) کی چسکیاں لینے اور اوط (ساز) سننے کو زیادہ مقدم جانتے ہیں۔ ان کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ “الباکستانی الحر۔۔۔” ان کی جگہ پر سینے چھلنی کروانے اور معذور ہونے کی خاطر بھیجے جا سکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کی دوڑ میں آج بھی، باوجود 2002 میں کاغذی طور پر ممانعت کے، غریب ملکوں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تین سے آٹھ سال کے بچے، اونٹوں کی پیٹھ پر باندھے جاتے ہیں۔ ان بچوں کو کھانے میں محض بسکٹ اور پینےکو پانی دیا جاتا ہے۔ نیند سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ ان کا وزن نہ بڑھنے پائے۔ اس کے برعکس دبئی کے حمکران کے اونٹوں کے لیے جدید ہسپتال ہے۔ دلیل یہ ہے کہ بچہ ہزاروں میں مل جاتا ہے اور اونٹ لاکھوں بلکہ بعض اوقات کروڑوں میں۔
عربوں میں مغرور ترین عرب سعودی ہیں، پھر مارات کے اور قطر کے۔ مصری اوّل تو عرب نہیں دوسرے وہاں تہذیب رہی تیسرے امیر نہیں چوتھے تعلیم یافتہ ہیں، اس لیے بہتر ہیں۔ باقی عرب مصریوں کی نسبت سعودیوں، اماراتیوں اور قطریوں سے کم یا زیادہ حد تک ملتے جلتے ہیں۔ عربوں میں ازل سے نقص نہ ہوتے تو پیغمبروں کی بہت بڑی تعداد وہاں مبعوث نہ کی جاتی۔ عرب آج بھی تقریبا” ویسے ہی عرب ہیں جن کی اصلاح کے لیے پیغمبر اتارے گئے تھے۔ فرق یہ ہے کہ آج وہ بہت زیادہ امیر ہیں۔ تاجر ذہن لوگ ہیں۔ ان کے لیے اونٹ اور فوجی، بچے اور طیارے سبھی بکاؤ ہوتے ہیں۔ ان کا قصور نہیں ہے، وہ تو ہیں ہی ایسے۔ قصور ہمارا ہے کہ ہم نہ صرف یہ کہ مذہب کے نام پر بلیک میل ہونے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں بلکہ ہم نے اپنے ساتھ ساتھ اپنا زیرجامہ بھی ان کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ ہم بہت اذیت میں ہوتے ہوئے بھی انہیں اہلا” و سہلا” کہتے رہتے ہیں اور وہ ہمارے اوپر تھوکتے رہتے ہیں۔ خواجہ آصف کو چاہیے کہ ہم سب کو اپنے سمیت شرم، حیا اور غیرت دلوائیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply