• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کے تمام سیاسی کارکنان کے نام ایک کھلا خط۔۔محمد وقاص رشید

پاکستان کے تمام سیاسی کارکنان کے نام ایک کھلا خط۔۔محمد وقاص رشید

میرے پیارے سیاسی کارکن بھائی / بہن
اسلام علیکم
سیاسی افق پر جو کچھ پچھلے ایک مہینے کے اندر اندر ہوا وہ ایک بہت بڑا سبق بن کر ہم سیاسی کارکنوں کے سامنے نوشتہِ دیوار ہے جسے ظاہر ہے پڑھنا نہ پڑھنا ہر کسی کا اختیار ہے۔ لیکن ہم سب جنابِ آدم ع کی اولاد ہیں اور آدمی اپنی سرشت میں انکی اس دعا سے جڑا ہوا ہے جو کہ انسانی ارتقائی نظام میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے کہ “ربنا ظلمنا انفسنا ” تسلیم کہ ہم سے غلطی ہوئی اے مالک اور ہم اصلاحِ احوال کے لیے تیار ہیں۔ یہی بنی نوع انسان کی میراث ہے۔

میرے دوستو اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے نا صرف سیاسی نقطہِ نظر کے حوالے سے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس اندازِ فکر سے نکل آئیں جو اکثر تیسری دنیا کے لوگوں کے ارتقاء اور ترقی میں رکاوٹ ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے ہمارا طرزِ فکرو عمل ایسا حتمی ہے کہ اس میں بہتری کی گنجائش بھی ممکن نہیں ہمارا زاویہ نگاہ بھی ایسا کامل ہے کہ اسے تبدیل کیا جانا بھی ممکن نہیں۔ ہم اسی ایک کٹھورپن کی وجہ سے فکری استعداد کو بڑھانے والی سائینسی و سماجی تحقیقات اور سٹڈیز سے بھی محروم رہتے ہیں اور نتیجتاً سماج کے مختلف انڈیکیٹرز کی طرح سیاست بھی ہمارے لیے نسل در نسل ایک دائرے کا سفر ہے۔

پیارے ساتھیو۔ آپ ہی کی طرح کا ایک عام سیاسی کارکن ہوں اور ایک کارکن کی حیثیت سے تمام افعال سرانجام دینے کے بعد اپنے مشاہدات آپکے سامنے اس امید پر رکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے جیسے ایک کارکن کی بات پر غور فرمائیں گے۔

پرویز مشرف صاحب کے ڈبل مارشل لادور کے اختتامی سالوں میں میاں نواز شریف صاحب نے آل پارٹیز کانفرنس لندن میں بلائی اور اسکے اعلامیہ میں یہ اعلان کیا کہ جن لوگوں نے آمر کو آئین توڑنے کے لیے سیاسی جواز فراہم کیا اور ہمیں ہمارے والد کے جنازے کو کاندھا تک فراہم نہیں کرنے دیا سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل آئے انہیں پارٹی میں نہیں لیں گے اور پھر وقت نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ابھرنے کے وقت میاں صاحب نے ان تمام لوگوں کو اپنی پارٹی میں واپس لے لیا۔ شہباز شریف صاحب زرداری صاحب کا الیکشن کیمپین کے دوران پیٹ پھاڑتے رہے اور حکومت میں آکر اسے جوشِ خطابت قرار دیتے رہے۔ 2008 سے شروع ہونے والے پیپلزپارٹی کے دور میں ایک وقت وہ بھی آیا جب میاں نواز شریف میمو گیٹ میں زرداری صاحب ہر غداری کا مقدمہ اور آٹیکل 6 لگانے کے لیے خود کالاکوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

اسی طرح جب وقت بدلہ تو 2013 میں نون لیگ کی حکومت کے تین سال بعد پانامہ کیس میں عمران خان صاحب کو سارا کریڈیٹ لیتا دیکھ کر زرداری صاحب نے میاں صاحب پر سنگین ترین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مولوی نواز شریف پاکستانی پنجاب کو بھارتی پنجاب میں ضم کرنا چاہتا ہے اگر اسے اب معاف کر دیا تو اللہ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گا۔

اتنی دیر میں 2013 میں دوتہائی اکثریت لکھ کر دیتے خان صاحب 30 سیٹوں اور 126 دن کے دھرنے کے بعد اقتدار کے اصلی “دربارِ عالیہ” تک پہنچ چکے تھے۔ اور جن کے خلاف پارٹی بنائی تھی انہی ٹانڈوں کو جوڑ کر بنی ہوئی اقتدار تلک پہنچانے والی سیڑھی پر چڑھتے چڑھتے 2018 میں آخر کار وزیراعظم بن چکے تھے۔

خان صاحب کے بقول پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پرویز الہی کی ق لیگ ، پی ٹی آئی کی زہرہ آپا سمیت کراچی کے بے شمار لوگوں کی قاتل ایم کیو ایم اور مینگل صاحب کی جماعت کو ساتھ ملا کر ایک کمزور سی حلیف حکومت کے سربراہ وزیراعظم پاکستان کو اب ساڑھے تین سال بعد ایک تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے نکالنے والے اور اسکے نتیجے میں حکومت بنانے والے لوگ کوئی اور نہیں وہی ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کو کیا کیا کہتے رہے وہ لکھ چکا اور مستقبل قریب میں پھر یہی ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہونگے۔ ان سارے ادوار میں جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم جیتنے والے کے ساتھ مل کر ہارنے والے کے خلاف اسکی جوشِ خطابت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔

اس تمام روداد میں پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نون ، جمیعت علماءِ اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان ہر قول و فعل کے 180 ڈگری کے تضاد پر سچائی کا موقف اپنانے کی بجائے سیاسی عصبیت کو ترجیح دیتے ہوئے اسی موقف کے حق میں نعرے لگائے جو کہ اکابرین نے ان پر مسلط کیا اور جس میں انکا سیاسی مفاد تھا۔

آج کل خان صاحب اپنی وزارت عظمی کے دوران کیے گئے مختلف اقدامات کو “بوجوہ ” غلطیاں کہہ کر جہاں نیوٹرل ہو جانے والی اقتدار کی اصلی آماجگاہ کو غوروفکر کا پیغام دے رہے ہیں وہیں انصافی دوستوں کے لیے اس میں ایک بہت بڑا پیغام پوشیدہ ہے۔

خان صاحب نے کہا بزدرار ،فائز عیسی ریفرنس کیس ، پاپا جونز پیزا کیس ، پیکا ایکٹ اور ڈالر کا ریٹ غلطی تھی۔ افسوسناک ترین بات یہ ہے کہ یہ اقدامات کرتے ہوئے خان صاحب نے ان تمام اقدامات کی بھرپور وکالت کی بلکہ اپنے سوشل میڈیا سے انکے حق میں پراپیگینڈا کیمپین بھی کروائی۔ خان صاحب تو آج سیاسی ضرورت کے تحت اعتراف کر رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے کارکنان صرف ایک کیس پر غور کر کے طالبِ علم کا پیغام سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جسٹس فائز عیسی سپریم کورٹ کے انتہائی معتبر جج ہیں جنہوں نے جب سے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ دیا تب سے زیرِ عتاب آ گئے۔ انصاف کی حکومت نے نا انصافی کی تو انتہا کی ہی انکے خلاف جس پر سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا لیکن وہ دوست جو خود کو انصافی کہتے ہوئے اپنی والز اور پیجز سے جسٹس فائز عیسی صاحب اور انکی اہلیہ محترمہ کی مسلسل کردار کشی کرتے رہے آج انکے لیے نا صرف شرمندگی کا مقام ہے بلکہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم ازکم اتنا ہی کہہ دیں جتنا خان صاحب نے کہا جو آدم کی اولاد ہوتے ہوئے آدمی کی سرشت سے جڑی دعا ہے کہ “ربنا ظلمنا انفسنا”

پچھلی دو دہائیوں کے سیاسی مشاہدے کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آپ کا تعلق جس بھی سیاسی جماعت سے ہے ہم کارکنان اگر ایک بات طے کر لیں کسی کو دکھانے کی خاطر نہیں بلکہ اس خدا کی خاطر جسے ہم نے ایک دن ہر قول و فعل کا حساب دینا ہے کہ ہماری سیاسی سپورٹ اور وابستگی وہاں تک ہی ہو گی جہاں تک سچائی اور عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں کی پیروی ہوگی وگرنہ ہم اپنی سیاست پر اپنی آخرت کو قربان نہیں کر سکتے اگر سپورٹ جاری بھی رکھنی ہے تو کم ازکم اس معاملے پر تو نہ کی جائے جس پر ہمارا ضمیر اور دل گواہی دیتے ہوں کہ یہ ظلم اور خلافِ حق ہے اور اگر ہمیں ہمارا ضمیر ہی اس پر کوئی ملامت نہیں کرتا تو اور بھی فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

پچھلے ایک مہینے میں ہر چیز 180 ڈگری پر تبدیل ہوئی۔ جو حکومت تھی اپوزیشن بن گئی جو اپوزیشن تھی وہ حاکمِ وقت۔ ایک پیج کا بیانیہ اچانک بدل کر دوسری طرف کا ایک پیج بن گیا۔ فوج پر جائز اور تعمیری تنقید برائے اصلاح کو بھی ففتھ جنریشن وار فئیر کے خلاف سازش قرار دیتے انصافی اچانک جنرل بوجوہ صاحب کے نام کے ٹرینڈز چلانے لگے۔ اور باجوہ صاحب کا نام لے کر تنقید کرنے والی نون لیگ کے لوگ اچانک فوج کے “نیوٹرل” ہو جانے پر بغلیں بجاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو اپنے بیانیے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ ڈالر کے ریٹ اور مہنگائی کو عالمی مسئلہ قرار دینے کی آوازیں یکسر آپس میں تبدیل ہو گئیں۔ سپریم کورٹ سے نواز شریف صاحب کی نااہلی اور خان صاحب کے صادق اور امین ہونے سے شروع ہونے والا مسلم لیگ نون کا عدلیہ پر سوال اٹھانے اورپی ٹی آئی کا انکے صدقے واری جانے کا بیانیہ آپس میں عین متضاد ہو گیا۔

یوں لگتا ہے جیسے ایک ڈرامے میں کرداروں کو ایک دوسرے کے اسکرپٹ پکڑا دیے گئے ہوں۔ ہیرو ولن بن گیا ولن ہیرو۔

جانتے ہیں ایسا کیوں ہے کیوں کہ اسکی وجہ ہم ہیں ہم۔۔ ہم جنہیں سچی گواہی دینے کا حکم ہے چاہے ہمارے ماں باپ کے خلاف جاتی ہو۔ ہم جنہیں نفرت اور محبت کی انتہا پر انصاف بھی کرنے کا حکم ہے۔ ہم جنہیں برائی دیکھ کر اسے ہاتھ سے نہ روک پانے زبان سے منع کرنے نہ کر سکنے کے بعد آخری درجہِ ایمان کے طور پر دل میں برا سمجھنے کا حکم ہے۔ ہم ہیں اسکی وجہ۔۔۔۔۔۔۔ ہم
آپ کا تعلق جس بھی سیاسی جماعت سے ہے آپکو مبارک ہو لیکن ہم سماجی انتشار اور خلفشار کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہم اپنے اقتداری حکومتی اور سیاسی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے کبھی جانی دشمن بننے اور کبھی ایک دوسرے پر جان وارنے والے ان سیاسی زعما پر مزید یہ نہیں چھوڑ سکتے آئیں کہ اب بحیثیت کارکنان وہ شعور پیدا کریں جو آگے چل کر ان لوگوں کو مجبور کرے کہ یہ ہمیں ہر 180 ڈگری زاویے پر بدلتے ہوئے موقف پر تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے اندھے مقلدین سمجھنے کی بجائے جیتے جاگتے باشعور سیاسی کارکنان سمجھیں جنکا نظریہ یہ ہو کہ اب ہم پاکستان کے تمام سیاسی کارکنان ۔۔۔
٭ سیاسی اختلاف کو ذاتی باہمی احترام کی تنسیخ کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔
٭نفرت انگیز گفتگو نہ کریں گے نہ اس پر تالیاں بجائیں گے اور نعرے لگائیں گے۔ بلکہ سیاست میں در آنے والی نفرت کو کو ختم کرنے اور رواداری ،مروت اور بھائی چارے کا کلچر قائم کرنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر کوشش کریں گے۔
٭ سیاست میں گالی گلوچ کی مکمل حوصلہ شکنی کریں گے۔
٭ مذہب کارڈ ، فرقہ کارڈ ،لسانیت کارڈ یا کوئی بھی اور عصبیت کارڈ کے استعمال کی اجازت نہیں دینگے۔
٭دوسری جماعت کے کارکنان اور لیڈران کو عزت سے پکاریں گے نام بگاڑنا ،نقلیں اتارنا اور اسطرح کے دوسرے غیر اخلاقی کاموں پر قہقہے اور تالیاں بجانے اور خود بھی ایسا کرنے کی بجائے بصد احترام اپنی اپنی قیادت کو کسی بھی طرح اسکے خلاف پیغام پہنچائیں گے۔
٭ ہم کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے اور محض دوسروں پر الزام تراشی کلچر کو اپنے ملک کی سیاست سے ختم کریں گے۔
٭ اپنی اپنی جماعتوں میں کارکنان کو عزت دیے جانے اور اہل لوگوں کو اوپر لانے کے لیے اپنی آواز بلند کریں گے اور جمہوریت کو ملک میں لانے کے ساتھ اپنی اپنی جماعتوں میں لانے کی بھی سرتوڑ کوشش کریں گے۔ جو بد قسمتی سے کسی مین سٹریم سیاسی جماعت میں نہیں پائی جاتی۔ ہر جگہ جماعت کی بھینس اسی کی ہے جسکے پاس دولت ،اختیار اور وراثت کی لاٹھی ہے۔
٭ سوشل میڈیا پر بھی تعمیری سیاسی مہم چلائیں گے اور محض دوسروں کو نیچا دکھانے کے جماعتوں کے پروپیگینڈا کا حصہ نہیں بنیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عزیز رفقاء۔۔۔ پولیٹیکل سائینس اور سماجیات کا میں تو ایک ادنی طالب علم ہوں لیکن ماہرین اور انکی سٹڈیز یہ بتاتی ہیں جو کہ خاص طور پر پچھلی ایک دہائی سے ثابت شدہ حقائق بن کر سامنے آئے ہیں کہ گلے کی رگیں پھلا کر کیے گئے بلند آہنگ دعوے ایک ایسی ہیجان خیزی کو جنم دیتے ہیں جس سے انفرادی سطح پر تو لوگوں کو سیاسی فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن ملک و قوم کا سماجی ، اخلاقی ،معاشی اور سیاسی نقصان ہی ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے کئی قومیں ہیجان کی بجائے ایک ارتقائی سفر سے مسلسل محنت اور جدوجہد کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئیں اور یاد رہے کہ کوئی بھی ترقی اتحاد و اتفاق سے کی گئی مخلصانہ جدوجہد کے بنا ممکن نہیں اور نفاق ،ہیجان انگیزی ،سیاسی بد امنی وغیرہ قومی اور سماجی ترقی کو الٹا ایک معکوس سفر پر گامزن کر دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے لیڈران یہ بات سمجھ کر ہمیں سمجھائیں لیکن کیونکہ یہاں ہر کام الٹا ہے اس ہم کارکنان کو یہ بات سمجھ کر اپنے اکابرین کو سمجھانی پڑے گی۔ اور اسکے لیے آج سے موزوں کوئی وقت نہیں جب پیارا پاکستان شدید خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ ہماری یہ کاوش ہمارے بچوں کو ایک بہتر پاکستان دے سکتی ہے جہاں ہمارے بچے سیاسی کارکن بنتے ہوئے فخر کریں وگرنہ موجودہ صورتحال میں آپکے اس کارکن بھائی کو سیاست کا کوئی مستقبل دکھائی دیتا ہے نہ سیاسی کارکنوں کا۔ ۔۔ سلامتی اور امان
پاکستان پائندہ باد
سیاسی کارکنان زندہ باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply