بھنور۔۔ حبیب شیخ

زندگی میں کتنا ٹھہراؤ تھا!
آہستہ آہستہ رواں دواں زندگی
کوئی مسئلہ نہیں، کوئی پریشانی نہیں
لیکن ذ ہن کہیں کھویا ہوا
اور جسم ہمیشہ تھکا ہوا
یہ بے چین سوچیں اور ٹوٹتے ہوئے انگ
نہ پھولوں کی مہک، نہ پرندوں کی چہک
بہار آتی لیکن وہ خود مرجھایا ہوا
’زرد پتّوں کا بن‘
سب کی سوالیہ نظریں اس پہ مرکوز
اس کا بھی خود سے وہی سوال
دوست ناصح بن گئے
’محنت کرو، مشقّت کرو‘
’محبت کے ساتھ جیو‘
اس نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا
محبت بھی کی، نفرت بھی
محنت بھی مشقت بھی
سخاوت بھی عداوت بھی
کبھی بھلا کیا کبھی برا کیا
سر کے بل کھڑا ہؤا، الٹے پاؤں تک چلا
جو کسی نے کہا کرتا رہا
قرار نہیں آیا سکوں نہیں پایا
سوچیں بھٹکتی رہیں، جسم اور روٹھ گیا
پھر، پھر ایک حادثہ ہو گیا
زندگی کی نیّا بھنور میں پھنس گئی
نیّا تیزی سے گھومی اور ڈوبنے لگی
زندگی، زندگی، زندگی
اس کاجسم، دماغ، روح سب جاگ اٹھے
مل کر منصوبے بنائے، خوب ہاتھ پاؤں مارے
خود کو بھنور سے نکالنے کے لئے
ذہن اور جسم محنت سے چُور چُور
لیکن کوئی آرام کا خیال نہیں
خود کو بھنور سے نکالنے کے لئے
سوئی ہوئی طاقتیں مدد کو آگئیں
حواسِ خمسہ اور دماغ کی قوّتیں اور تیز ہو گئیں
کہیں سے چھٹی حِس بھی آگئی
خود کو بھنور سے نکالنے کے لئے
اسے ایک کنارہ نظر آیا
اس نے زندگی کی نیّا کو پوری قوت سے دھکیلا
زندگی کے اس جزیرے پہ پہنچ کرخود کو سنبھالا
پھر اپنے چند وسائل کو جمع کیا
اس چھوٹے سے جزیرے کو ہموار کیا
یہاں کوئی دولت نہیں، شہرت نہیں
اعلی مقام نہیں، رتبہ بھی نہیں
لیکن اب وہ آشنا ہے پھولوں کی مہک اور پرندوں کی چہک سے
سورج کی پہلی کرن سے، چاند کی مدھم چاندنی سے، ستاروں کی ٹمٹماتی چمک سے
اس کی بہار کسی فصلِ گل و لالہ کی محتاج نہیں، وہ سدا بہار ہے
دل کی دھڑکنوں میں قرار ہے
سوچیں قابو میں ہیں اور زندگی گلزار ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply