چوی گھنٹے۔۔محسن علی خاں

قابل احترام عزت مآب معزز چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ عدالتیں تو چوبیس گھنٹے اپنا کام کر رہی ہیں۔ مجھے نظیر اکبر آبادی کا ایک شعر یاد آگیا۔
گھنٹا کہیں چھانج کہیں سنکھ کہیں بانگ
جب غور سے دیکھا تو اسی کے ہیں یہ سب سوانگ
گھنٹے کے لفظی مطلب دیکھنے کے لیے ریختہ سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ لٹکانے کی کٹوری نما ٹال جس کے بیچ میں ایک لٹکن ہوتا ہے اور ٹال کے ہلنے سے باج کی آواز دیتا ہے، بیل یا اونٹ وغیرہ کے گلے میں لٹکانے کی گھنٹی یا وقت بتانے اورباج کی بڑی گھڑی جو عموماً دیواروغیرہ میں لٹکاتے یا بنیاد میں نصب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مینار نما عمارت جس میں وقت کا اعلان کرنے کے لیے گھنٹی لگی ہوتی ہے۔ کسی دھات کا توا وغیرہ جسے موگری سے بجاتے ہیں۔
گھنٹے کے سوانگ کو جب غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو علامہ اقبال رحمتہ اللّٰہ کے صاحب زادے جسٹس جاوید اقبال صاحب کی لکھی کتاب“ اپنا گریبان چاک“ کے کچھ صفحات یاد آۓ۔
آج کل بھی ویسے ہی حالات چل رہے ہیں اس لیے ایک نظر گزرے واقعات پر بھی ہونی چاہیے۔
جاوید اقبال صاحب نے جسٹس کرم الہی چوہان کے متعلق بتایا کہ وہ اُن کو کبھی کبھار ” ٹرکس آف دی ٹریڈ ” (یعنی ججی کے کاروبار میں جو کھیل کھیلے جاتے) سے متعلق سبق دیا کرتے تھے۔
جب بھٹو صاحب نے قبل از وقت انتخاب کراۓ اور اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تو مخالف تمام جماعتوں نے ایکا کر کے انتخاب میں دھاندلی کے نام سے جلسے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ جو کہ پرتشدد کاروائیوں میں بدل گے۔ جس کے تدارک کے لیے بھٹو صاحب نے“ منی مارشل لا“ لگا دیا۔ فوج نے مظاہرین پر گولیاں بھی چلائیں جس کے نتیجے میں کچھ لوگ بھی مارے گے۔ ہائی کورٹوں میں بھٹو صاحب کے اس مارشل لا کے خلاف رٹیں ہوئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی رٹ کے نتیجے میں پانچ ججوں پر مشتمل فُل بنچ بنائی گئی۔ جس نے بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔
جاوید اقبال صاحب نے جب اس فیصلے کی نسبت جسٹس کرم الہی چوہان سے پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا: ” دستور سے متعلق فیصلے جج کے ضمیر کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وقتی مصلحت کے تحت کیے جاتے ہیں۔ ایسے کیسوں میں، میں تو ہمیشہ دو فیصلے تیار کر کے رکھتا ہوں۔ ایک حکومت کے حق میں اور دوسرا خلاف۔ جو وقتی مصلحت ہو اسی کے مطابق مثبت یا منفی فیصلہ سُنا دیتا ہوں”۔
جاوید صاحب نے چیف جسٹس مولوی مشتاق کی جانب داری سے بھی پردہ اُٹھایا کہ بھٹو صاحب کے کیس کے متعلق چیف جسٹس نے کہا “یہ تو اوپن اور شٹ کیس ہے۔ کھولو اور بند کر دو۔ لمبی چوڑی بحث کی ضرورت ہی نہیں”۔ باقی جو ہوا وہ سب تاریخ ہے۔
جاوید صاحب نے عدل گُستری کے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوۓ لکھا تھا کہ“ پاکستان کی اعلی عدالتوں کے دو چہرے ہیں، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی۔ ظاہری چہرہ تو وکلاء اور سائلین کو نظر آتا ہے اور باطنی چہرہ وہی دیکھ سکتے ہیں جو“ بار“ کی دیوار پھلانگ کر“ بینچ“ پر آبیٹھیں یعنی خود جج بن جائیں”۔
میں تو بس یہ بتانے کے لیے یہ چھوٹی سی تحریر لکھی ہے کہ میرا تعلق فیصل آباد سے ہیں۔ یہاں ایک مشہور گھنٹہ گھر ہے۔ جس کی اونچائی ہماری معزز عدلیہ سے صرف تیس درجے کم یعنی سو فُٹ ہے۔ جب کہ ہماری عدلیہ ورلڈ رینکنگ میں 130 فٹ پر براجمان ہے۔ اب ہم فیصل آبادی چوی چوی گھنٹے کام تھوڑی کر سکتے۔ ہم سے تو اپنا ایک گھنٹا ہی نہیں سنبھال ہو رہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply