تحریکِ عدم اعتماد سے برآمد ہوتے کچھ لطیفے۔۔محمد وقاص رشید

اس وقت ملکی سیاست کا درجہ حرارت نقطہ عروج پر ہے۔ طالبِ علم نے سوچا کیوں نہ اسے نیچے لانے کے لیے کوئی اقدام کیا جائے۔ سو سیاست سے دامن چھڑانا بھی ممکن نہیں تھا اس لیے عدم اعتماد تحریک کے دوران سامنے آنے والے بھیانک لطیفے پڑھیے اور تھوڑا مسکرا لیجیے کہ اس حمام میں سبھی لطیفہ گو ہیں۔

٭ عمران خان صاحب نے عدم اعتماد کی تحریک کو بیک وقت امریکی سازش اور اپوزیشن کے لیے تیار کیا ہوا کپتان کا ٹریپ قرار دیا۔

٭ عمران خان صاحب نے قوم کو بتایا کہ پاکستان کے خلاف امریکی سازش سامنے آنے کی نا صرف انہوں نے دعا کی بلکہ قبولیت پر دو نفل پڑھے۔

٭ بلاول بھٹو زرداری صاحب نے کانپیں ٹانگنے کو Slip of Tongue کہنے کی بجائے اسے سوچی سمجھی اصطلاح قرار دیا۔

٭ شہباز گل صاحب نے رمیش کمار صاحب کے لیے خادم رضوی مرحوم کا تکیہ کلام اپنایا اور اسکی وضاحت دیتے ہوئے کہا یہ گالی نہیں۔ پنجابی میں بروکر کو کہتے ہیں۔ اب یہ ان سے پوچھنا باقی ہے کہ کیا انہیں اب سابق وزیراعظم صاحب کی طرف سے “چیف آف سٹاف” لگائے جانے کے بعد خان صاحب اور انکے سٹاف کے درمیان وہی خادم رضوی مرحوم والا بروکر کہہ سکتے ہیں ؟

٭ فیصل جاوید خان صاحب نے پاکستان کی ہر پارٹی گھوم کر آنے والے فواد چوہدری صاحب سے کہا اگلے الیکشن میں نظریاتی کارکنوں کو ٹکٹیں دیں گے۔ گھس بیٹھیوں کو نہیں۔ انکی بات سنی ان سنی کر دینے والے فواد چوہدری سہیل وڑائچ صاحب کو انٹرویو میں یہ کہہ چکے کہ وہ نظریے وظریے کو نہیں عملیت پسندی کو مانتے ہیں۔

٭ جب ساری بحث ہی قومی غیرت اور امریکی سازش کی چل رہی تھی تو شہباز شریف صاحب نے کمال ذہانت سے پی ٹی آئی کے بیانیے کو Beggars are not choosers کے ذریعے “شکستِ فاش” دے دی۔ اور پھر وزیراعظم بن کر تقریر میں اپنے ہی بیان کی نفی کرتے ہوئے کہا۔ Beggars کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

٭ مونس الہی صاحب نے منیب فاروق صاحب کے پروگرام میں کہا کہ پرویز الہی کی پی ڈی ایم سے دعاءِ خیر نہیں ہوئی تھی۔ انکی اپنے والد پرویز الہی سے تو بات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک تھرڈ پرسن نے انہیں بتایا کہ وہ کسی  پر فاتحہ پڑھ رہے تھے۔

٭ پورے ملک میں فرح صاحبہ نامی خاتون کے چرچے تھے پورے ملک کا میڈیا سوشل میڈیا اسکے شیخوپورہ سے لاہور سے گوجرانوالہ ،وزیراعظم ہاؤس میں دفتر ، خاتونِ اول اور مانیکا خاندان سے تعلق ، پاکستان سے دبئی میں جائیدادیں اثاثے چھان رہا تھا تو پی ٹی آئی کے اطلاعات کے وزیر فواد چوہدری صاحب سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کون فرح ؟

٭ مولانا فضل الرحمن صاحب نے عدم اعتماد تحریک کا کمال کا جواز پیش کیا پہلے کہا عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی ہے یہ انکا غلام ہے۔ جب سوال ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ اب نیوٹرل کیوں ہو گئی ہے تو جواب دیا انہیں بھی تو کوئی عقلمند غلام چاہیے۔

٭ اعتزاز احسن صاحب نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب جب امپائر کو نیوٹرل قرار دیتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ میری طرف ہو کر نیوٹرل ہیں۔

٭ پورے پاکستان کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تاثرات ایک طرف صابر شاکر صاحب کے ایک طرف جنہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم سپیکر کو دیا ہے اگر وہ اس دن بیمار پڑ گئے تو ؟

٭ جب پورا ملک ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر حیران و ششدر تھا تو شیخ رشید صاحب نے کہا کہ یہ کوئی سرپرائز نہیں میں تو آپکو تین چار دن سے اشاروں کنایوں میں بتا رہا تھا۔

٭ پی ٹی آئی کو پاکَستان تریخِ اَنصاف کہنے والے راجہ ریاض صاحب نے سندھ ہاؤس میں بڑا دلچسپ بیان دیا۔ ہمیں یہاں کوئی لے کر نہیں آیا۔ ہم نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے ضمیر کی آواز پر فیصلہ کیا۔ ہاں اگلا الیکشن نون لیگ کے ٹِغَٹ پر لڑوں گا۔ اور بھی بندوں کے ضمیر جاگنے تھے لیکن نون لیگ کے پاس اتنی ٹغٹیں نہیں۔

٭ چوہدری پرویز الہی صاحب نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ خان صاحب کی نیپیاں تبدیل کرتی رہی۔ مہر بخاری صاحبہ نے پوچھا کہ اب کیوں تبدیل نہیں کر رہی تو چوہدری صاحب نے کہا کیونکہ اب نیپیاں بھی مہنگی ہو گئیں ہیں۔ یاد رہے کہ انکے اس بیان کا مقصد پورا ہو گیا اور خان صاحب نے انکو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا۔

٭ نون لیگ کے زبیر عمر صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ تو جہانگیر ترین صاحب کو چینی چور کہتے تھے تو انہوں نے بہت معصومیت سے کہا “ایک سال سے تو نہیں کہا ”

٭ وزیراعظم بننے کے بعد شہباز شریف صاحب کی ازلی جوشِ خطابت نے کام دکھایا اور سنا ہے تنخواہوں میں 10فیصد اضافے پر سرکاری ملازمین کو کہہ دیا گیا ہے کہ یہ تو پرینک تھا۔ وہ سامنے کیمرے کو دیکھ کر ہاتھ ہلا دیں۔

٭ میاں جاوید لطیف صاحب کو یہ کریڈیٹ نہ دینا زیادتی ہو گی کہ جنہوں نے باقی تمام لطائف کو پیچھے چھوڑ کر خود کو سونے چاندی یا کانسی کے تمغے کے لیے نامزد کرواتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف صاحب کے وزیراعظم بنتے ہی میاں نواز شریف صاحب کو لندن کے ڈاکٹروں نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں وبا ختم ہو گئی ہے اور وہاں کے ڈاکٹرز اب صحیح کام کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان جا سکتے ہیں۔

٭ ندیم افضل چن صاحب نے ٹی وی پر میریٹ ہوٹل کے واقعہ کی جسٹیفکیشن دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ اس نے گالی دی تھی اس لیے اسکے ساتھ وہی ہوا جو قومِ یوتھ کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ یاد رہے کہ ویڈیو میں سب سے اونچی آواز میں گالیاں چن صاحب ہی دے رہے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج تک نہ کبھی کسی کو گالی دی نہ کبھی جھگڑا کیا۔۔۔اس بات کو سب نے سنجیدہ لیا سوائے انکے آڈیو کال والے مختارے کے۔

٭ ن میں سے ش نہ نکلنے پر سیاست چھوڑ دینے والے شیخ رشید صاحب نے ش کے وزیراعظم بننے کے بعد اب اگلا اعلان یہ کیا ہے کہ اگر ش کی حکومت ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا۔ واضح رہے کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے پیشین گو سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔

٭ تشدد کی بہرطور مذمت ہے چاہے کوئی بھی کرے کسی پر بھی کرے۔ چوہدری پرویز الہی صاحب نے بازو ٹوٹنے کی شکایت درج کروانے والی ویڈیو میں وہی والا بازو اٹھا کر کہا کہ دیکھو یہ میرا بازو توڑ دیا۔

٭ سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے چوہدری پرویز الہی کی ساری داستان سن کے جب یہ کہا کہ اچھا یہ سارا کچھ کب ہوا ہے ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا۔ ویڈیو بند ہونے کے بعد چوہدری صاحب نے ضرور پوچھا ہو گا۔ مریں تو ساڈے ول ایں یا اونہاں ول۔۔۔

اس وقت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب سے جب دھواں دار تقریر کے بعد اینکر نے پوچھا کہ امریکہ کے خلاف نعرہ لگائیں گے تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں ایک ذمہ دار پوزیشن پر ہوں ، انکی یہ بات ادھوری تھی انکا بیٹا زین قریشی زیادہ ذمہ دار پوزیشن پر ہے جو کہ امریکہ میں ہیلری کلنٹن صاحبہ کے آفس میں کام کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سب سے بہترین لطیفہ کسے قرار دوں میرے لیے تو ناممکن تھا۔ آپ اپنی افتادِ طبع کے مطابق فیصلہ کر لیجیے۔ لیکن اسکے لیے آپ کو بھی “نیوٹرل ” ہونا پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply