آئین شکن۔۔رعایت اللہ فاروقی

انسان ایک سماجی جاندار ہی نہیں بلکہ باشعور ہستی بھی ہے۔ چنانچہ یہ اس کے شعور کا فیصلہ تھا کہ جب رہن سہن مشترک ہے تو پھر اس کے لئے کچھ اصول بھی ہونے چاہئیں۔ ایسے اصول جو پرامن بقائے باہمی کی ضمانت بن سکیں۔ معاشرے میں انتشار نہ ہو اور سب ان اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ یوں علم کی مدد سے عمرانیات کو وجود ملا۔
گھروں کی صورت پہلے سے موجود حدود کا تصور وسیع ہوا تو تحصیل، اضلاع، ڈویژن، صوبے اور ممالک کی صورت بڑی حد بندیاں بھی قائم ہوگئیں۔ آئین اور ان کے تحت قوانین وجود میں آگئے اور طے پایا کہ انہی کے ذریعے حقوق کا تعین اور انہی کے توسط سے حقوق کا دفاع بھی ہوگا۔ کوئی تنازعہ پیدا ہوگا تو عدالت کے ذریعے اس کا فیصلہ ہوگا اور یہ فیصلے سب کو قبول کرنے ہوں گے۔ پھر سوال پیدا ہوا کہ جب زمین پر جغرافیائی لکیریں کھنچ گئیں۔ تو اب ممالک کے بھی تو ایک دوسرے کے ساتھ معاملات چلیں گے۔ ان کا کیا بنے گا ؟ یوں عالمی قوانین اور عالمی ادارے وجود میں آگئے۔ یہ ایک طویل سفر ہے جو حضرت انسان نے ہزاروں سال میں طے کیا ہے۔ ارتقاء نت نئے مسائل مستقل پیدا کر رہا ہے، چنانچہ انسان آئینی ترامیم اور نئی قانون سازی کے ذریعے ان کا بھی حل نکال رہا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

قابل توجہ بات یہ ہے کہ خاندانوں سے لے کر ممالک تک، ترقی فقط قانون کی عملداری سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ اور جو ممالک ترقی کے سفر میں پیچھے رہ رہے ہیں اس کی واحد وجہ بھی قانون کی عملداری نہ ہونا ہے۔ اس پورے پس منظر کو پیش نظر رکھ کر اب غور کیجئے کہ ہمارے سیاسی نظام میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی مصنوعی جماعت بے شمار بیساکھیوں کے ذریعے اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی کہ ملک میں موجود جماعتیں سب کی سب چوروں کے گروہ ہیں۔ تمام قومی قیادت بدعنوان ہے۔ اس دعوے کا مطلب یہ ہوا کہ قانون کی عملداری نہیں ہے۔ آئین کا احترام وجود نہیں رکھتا۔ جب اس جماعت کے مطابق قومی قیادت سب کی سب چور ہوگئی تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ملک میں قانون کا نہیں بلکہ چوروں کا راج ہے۔ مگر اس دعوے کا ایک بدیہی مطلب اور بھی نکلتا ہے۔ اور وہ یہ کہ پوری قومی قیادت پر چور ہونے کا سیاسی فتویٰ لگانے والی جماعت اپنے اقتدار میں آئین کو ایسی سرخروئی عطاء کرے گی جو اس سے قبل کبھی نہ دیکھی گئی ہوگی۔ قانون کی ایسی عملداری ہوگی کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہوئے ایک دوسرے سے سے کہیں گے “پہلے آپ، نہیں پہلے آپ” اور جب یہ پانی پی چکیں گے تو پھر شیری بکری سے اس کے بال بچوں کی خیریت پوچھے گا اور بکری شیر کے بچوں کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کچھ کھلونوں کا تحفہ بھی پیش کرے گی۔
عدل و انصاف کی برکت کا ہی نتیجہ ہوگا کہ چوہے بلیوں سے جان کی امان پالیں گے اور کتے بلیوں کو ہیپی برتھ ڈے کے پیغامات بھیجیں گے۔ رہ گیا انسان تو اس کی خوشحالی کا تو یہ عالم ہوگا کہ کھانا تین کے بجائے چھ وقت کھانے لگے گا۔ زمین سونا اگلے گی اور آسمان سے پانی نہیں شراب طہور برسے گی۔ امیر کسی کی قمیض میں سوراخ دیکھ کر اسے زکوٰۃ دینا چاہے گا تو وہ آگے سے کہے گا “کیوں شرمندہ کر رہے ہو بھئی ؟ میرا تو 300 کنال کا گھر ہے، یہ موریوں والی قمیض تو میں نے سادگی کے جذبے سے پہن رکھی ہے” ملک میں امانت و دیانت کا یہ عالم ہوگا کہ کسی کو لالوکھیت کی سڑک پر پڑا موبائل فون ملے گا تو وہ قریبی مسجد سے اعلان کروائے گا “حضرات ! ایک موبائل فون ملا ہے، جس کا ہو مؤذن صاحب سے آکر لے جائے” ظاہر ہے یہ سب اس حکومت اور اس کے اقدامات کی برکت سے ہونا تھا جو چور نہیں، صادق امین حکمران کی ہوتی۔
مگر جب یہ جماعت اقتدار میں آئی تو دیکھنے کو ملا کیا ؟ چھ ماہ تک تو اس کا سوشل میڈیا بریگیڈ ہمیں اس بات سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وزیر اعظم کی قمیض میں موریاں ہیں۔ ان موریوں سے ترقی کی کرنیں پھوٹتیں تو ہم تو ان موریوں کو چومنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ مگر ان موریوں سے تو مالم جبہ، بی آرٹی، دوائیوں اور چینی کے سکینڈل پھوٹے۔ مہنگائی نے غریب کے لئے جینا حرام کردیا اور شاہ کے ترجمانوں کی فوج قصیدوں میں مگن رہی۔ المیہ یہ نہیں کہ یہ حکومت اپنی نااہلی کے سبب کوئی کار خیر انجام نہ دے سکی۔ بلکہ یہ ہے کہ اس نے آئین اور قانون کو بھی ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ آئین نے کسی نااہل سے قوم کی جان چھڑانے کا ایک طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔ اس پر عملدرآمد شروع ہوا تو پہلے تو جلسہ عام میں آسمان کی جانب سر اٹھا کر شکر ادا کیا کہ تحریک عدم اعتماد آگئی، یہاں تک کہا گیا کہ اس کی تو میں نے دعا مانگی تھی۔ مگر جب انہی کی دعا قبول ہوتی نظر آئی تو سارا الزام امریکہ پر دھر دیا۔ کیا وہ دعا آپ سے امریکی صدر جو بائیڈن نے کروائی تھی؟ اور جب آپ تحریک عدم اعتماد پر شکر ادا فرما رہے تھے تو اس شکرانے پر آپ کو سی آئی اے نے اکسایا تھا ؟
حد تو یہ ہے کہ کئی ماہ تک فخریہ کہتے رہے کہ میں نے امریکہ کو اڈوں کے مطالبے پر ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر تاریخ رقم کردی ہے اور اب دو روز قبل مان گئے کہ امریکی حکومت نہیں صحافی سے کہا تھا۔ اس سے بھی بڑا تماشا یہ کہ 27 مارچ کو خط لہرا کر فرمایا کہ ہمیں اس خط میں دھمکی دی گئی ہے۔ اسی چیتھڑے پر سازش کا پورا بیانیہ کھڑا کیا گیا۔ اور صرف بیس دن بعد کراچی جلسے میں مؤقف اختیار کرلیا کہ امریکہ سے دوستی چاہتے ہیں۔ بھلا سازشیوں سے بھی کوئی دوستی کرتا ہے ؟ سازشیوں کا تو قلعہ قمع کیا جاتا ہے۔ چلیں مان لیا وہ سپر طاقت ہے۔ آپ اس پر کوئی لشکر کشی نہیں کرسکتے۔ کیا آپ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو کوئی خط لکھا کہ امریکہ ہمارے خلاف سازش کرکے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے ؟ کیا آپ نے دوست ممالک کوامریکی سازش کے ثبوت پیش کرکے عالمی رائے عامہ کے سامنے امریکہ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ؟ آپ کو تو سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک عالمی مہم چلانی چاہئے۔ آپ امریکی سازش کے خلاف کوئی عالمی مہم چلانے کی بجائے اسی سازشی امریکہ سے دوستی کیوں کرنا چاہتے ہیں ؟ اسی لئے نا کہ آپ کے پاس ثبوت کے نام پر دکھانے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ آپ تو اپنی ہی قومی سلامتی کمیٹی کو کسی سازش کے ثبوت نہ دکھا سکے تو عالمی برادری کو کیا دکھاتے ؟ آپ بس گلیوں میں ٹیپ بال سے کرکٹ کھیلتے بچوں کو ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ وہ بچے جن کے ووٹ ہی نہیں ہیں۔ اب آپ سوچتے ہیں کہ بڑے جلسے کسی اگلی کامیابی کی ضمانت بن جائیں گے۔ جلسے انتخابی کامیابی کی ضمانت ہوتے تو 2013ء میں نواز شریف نہیں آپ برسر اقتدار آتے۔ آپ تو شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ جلسے میں کارکن اور پولنگ بوتھ پر عام شہری آتا ہے۔ کارکن جلسہ کامیاب بناتا ہے۔ جبکہ انتخابی کامیابی عام شہری دلاتا ہے۔ وہ عام شہری جو جلسوں میں نہیں آتا۔سو جلسے اس بات کی تو دلیل ہیں کہ آپ کا کارکن آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ مگر الیکشن کا مزہ آپ کو عام شہری نے چکھانا ہے۔اور یہ شہری جانتا ہے کہ ڈیوٹی آپ کی خزانہ بھرنے کی تھی جبکہ مشن آپ نے توشہ خانہ خالی کرنے کا سنبھال لیا تھا۔ صد شکر کہ جس فارن فنڈنگ کیس کو سہولت کاروں کی مدد سے آپ سالوں دباتے آئے ہیں وہ اب حتمی مرحلے میں داخل ہوچکا۔ سو بابا رحمتے نے آپ کو جو سرٹیفکیٹ عطا کیا تھا اسی کی دھجیاں اڑ گئیں تو آپ الیکشن بھی کیسے لڑیں گے ؟بشکریہ ایم ایم نیوز

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply