میری داستان جدوجہد: ڈاکٹر غلام حسین/تعارف: لیاقت علی ایڈووکیٹ

ڈاکٹر غلام حسین کا شمار پاکستان پیپلزپارٹی کے ان رہنماوں میں ہوتا ہے جو خود کو نظریاتی کہتے ہیں۔وہ ضلع جہلم کے ایک پسماندہ گاوں چرغمال میں گذشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں پید اہوئے تھے۔مڈل تک تعلیم اپنے گاوں کےنزدیک واقع گاوں چکری راجگان سے حاصل کی اورمیٹرک مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور، ایف ایس سی گورنمنٹ کالج لاہور اور ایم بی بی ایس انھوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سےکیا تھا۔فوجی پس منظر کا حامل ہونے کے باوجودانھوں نےفوج میں جانے کی بجائےمنڈی بہاوالدین میں اپنا کلینک بنانے کو ترجیح دی تھی۔ شہر اور ارد گرد کے دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے غریب اور مفلوک الحال عوام سےحسن سلوک اور اپنی پیشہ ورانہ اہلیت اور قابلیت کی بنا پر وہ بہت جلد مشہور و مقبول ہوگئےتھے۔

1967 میں پاکستان پیپلزپارٹی قائم ہوئی تو ڈاکٹر غلام حسین بھی 1968 میں اس میں شامل ہوگئے۔1970 کے الیکشن میں پارٹی نے انھیں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے امیدوار نامزد کیا اور وہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوئےتھے۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جب پی پی پی کی حکومت بنی تو انھیں پنجاب کے گورنر ملک غلام مصطفے کھر کا مشیر مقرر کیا گیا تھا۔ اپنی خود نوشت میں انھوں نے بطور مشیر گورنر پنجاب اپنی کامیابیوں کی تفصیل بیان کی ہے۔ آئین سازی کے لئے اراکین قومی اسمبلی پر مشمل جو کمیٹی بنائی گئی تھی بھٹو نے ڈاکٹر غلام حسین کو اس کا رکن نامزد کیا تھا۔ آئین ساز کمیٹی کے اجلاسوں میں کیا کچھ ہوا، کس پارٹی اور شخصیت کا آئین سازی کے حوالے سے کیا موقف تھا اس بارے میں ڈاکٹر غلام حسین نے کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔مختصر عرصہ کے لئے گورنر پنجاب کے مشیر رہنے کے بعدبھٹو کے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں ان کی کارکردگی کیا رہی اس بارے میں انھوں نے کچھ نہیں لکھا ہے۔

1977 کے الیکشن میں ایک بار مرتبہ پھر پارٹی نے انھیں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے امیدوار نامزد کیااور وہ ایک بار پھر یہ الیکشن جیت گئے تھے۔ مارچ 1977 کے لیکشن جنھیں قومی اتحاد نے چیلنج کیا اور اس کے خلاف تحریک چلائی تھی، کے بعد نئی حکومت میں بھٹو نے ڈاکٹر غلام حسین کو وفاقی وزیر ریلوے تعینات کیا تھا۔ انھوں نے بطور وفاقی وزیر ریلوے اپنی کامیابیوں اور کارکردگی کے لئے اپنی خود نوشت کے بہت سے صفحات مختص کئے ہیں۔ اپریل 1977 میں ڈاکٹر مبشر حسن پی پی پی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے جب مستعفی ہوئے تو بھٹو نے ڈاکٹر غلام حسین کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری مقرر کردیا تھا۔ وہ اس عہدے پر کئی سال فایز رہے اور انھوں نے بطورجنرل سیکرٹری پارٹی کارکنوں کو مارشل لا کے خلاف متحرک کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔وہ محض چار ماہ تک وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز رہے تھے کیونکہ جولائی 1977 میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کرکے بھٹو حکومت کو برخاست اور قومی اسمبلی توڑ دی تھی۔

جنرل ضیا کا مارشل لا ڈاکٹر غلام حسین کے لئے شدید ابتلا کا دور تھا۔ انھوں نے چار سال مختلف جیلوں میں گزارے تھےمارچ 1981 میں انھیں پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے والے ہائی جیکرز کے مطالبے پر جیل سے نکال کر کابل بھیج دیا گیا تھا۔ کابل سے وہ شام اور پھر سویڈن چلے گئے۔ وہ 1988 میں جنرل ضیا کی موت کے بعد سویڈن سے واپس پاکستان آگئے۔ وہ ایک دفعہ پھر پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی طور پر متحرک ہونا چاہتے تھے لیکن انھیں جلد ہی اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ پیپلزپارٹی میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ بے نظیر پارٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکی تھیں۔ اور انھیں پارٹی کی جنرل سیکرٹری شپ سے علیحدہ کرنا اور الیکشن میں پارٹی ٹکٹ سے محروم رکھنا بے نظیر کی طرف سے طاغوتی طاقتوں سے کمپرومائز کا نتیجہ تھا۔انھوں نے اپنے حلقے سے پیپلزپارٹی کے نامزد امیدوار چوہدری الطاف حسین( بعد ازاں گورنر پنجاب) کا مقابلہ کیا تھا لیکن وہ یہ الیکشن ہار گئے تھے۔ مرتضٰے بھٹو جب جلاوطنی ختم کرکے واپس پاکستان آئے اور انھوں نے بے نظیر کے خلاف اپنی سیاسی مہم شروع کی تو ڈاکٹر غلام حسین ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے اور جب انھوں نے پیپلزپارٹی کا اپنا دھڑا شہید بھٹو کے نام سے قائم کیا تو ڈاکٹر غلام حسین اس میں شامل ہوئے۔

ڈاکٹر غلام حسین نے بطور مشیر گورنر پنجاب، وفاقی وزیر ریلوے اپنی کارکردگی، کامیابیوں،جیل اور جلاوطنی میں گذارے ماہ و سال، اس دوران پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ میشر اور وزیر کے طورپر اپنی کارکردگی اور کامیابیوں کو بیان کرنے کے لئے غیر ضروری طورپر طویل پیرا گراف مختص کئے ہیں۔ خود نوشت کے یہ طویل پیرا گراف خود ستائشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔اپنے قائد بھٹو بارے ان کی آبزرویشن بہت دل چسپ ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب بھٹو اور کھر کے مابین اختلافات چل رہے تھے تو میں نے ایک دن بھٹو سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ کھر کی کامیابی دراصل آپ ہی کی کامیابی ہے لیکن انھوں نے فوری طور پر میری اس بات کی تردید کی تھی اور سوالیہ انداز میں مجھ سے پوچھا تھا کہ یہ میری کامیابی ہے یا اس کی؟ اس کے بعد میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔میں سمجھ گیا تھا کہ بھٹو اپنی شخصیت کے طلسم میں گرفتار ہیں اور اس پر کسی کا سایہ بھی پڑ جائے تو برداشت نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹر غلام حسین نے اپنی خود نوشت میںاپنی سیاسی زندگی میں پیش آنے والےواقعات،حادثات اوروہ شخصیات جن سے ملنے اور انھیں جاننے کے مواقع ملے کے بارے میں اپنے تاثرات، مشاہدات اور تجربات  شیئر  کرنے کی بجائے دوسرے مصنفین کی لکھی ہوئی کتب کا سہارا لیا ہے۔ جنرل ضیا بارے لکھتے ہیں کہ 27 اپریل سے 5 جولائی کی رات تک جنرل ضیاء نےبھٹو کا وفادار رہنے کے لیے جتنے سوانگ رچائےافسوس کہ بھٹو اپنی تمام تر ذہانت کے باوجودسمجھنے سےقاصر رہے تھے۔ڈاکٹر غلام حسین نے بھٹو کا ایک خط جو انھوں نےجنرل ضیاءکوقومی اتحاد کی تحریک کے دوران لکھاتھا بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔بھٹو اپنے اس خط میں رقم طراز ہیں کہ میں آپ( جنرل ضیاء )کی وفاداری، ذمہ داری اور حب الوطنی کی تعریف کرتا ہوں جس کا مظاہرہ آپ نے( تینوں مسلح افواج کے چیفس نے مشترکہ طور پر بھٹو حکومت کی حمایت اور وفاداری کا اعلان کیا تھا)مشترکہ بیان جاری فرما کر کیا ہے جس میں بیرونی حملہ آور اور تخریب کار کے خلاف ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لئے افواج پاکستان کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ مہربانی فرما کر اپنے ماتحت کام کرنے والے تمام فوجیوں تک میرا یہ احساس پہنچادیں کہ میں ان کے ڈسپلن،حب الوطنی اور ثابت قدمی کا مداح ہوں جس کا مظاہرہ انھوں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے کیا ہے۔

تین سال قبل جب کرتار پور راہداری کھولی گئی تھی تو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ یہ کپتان کی گگلی ہے جس سے اس نے بھارت کو سفارتی میدان میں آوٹ کردیا ہے۔ بھٹو بھی کچھ ایسا ہی سوچتے تھے۔ شملہ معاہدے کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ بھارت ہاکی میچ دیکھنے نہیں گیا تھا۔میں تو گول کرنے شملہ گیا تھا۔دیکھو کیسا گول کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں فرقہ ورانہ سیاست اور بنیاد پرستی کو ہوا دینے میں دوسری آئینی ترمیم نے بہت اہم رول ادا کیا ہے ڈاکٹرغلام حسین اپنی خود نوشت میں اس ترمیم کا دفاع کرتے ہیں اور اس کا سارا ملبہ احمدیوں کی مذہبی قیادت پر ڈالتے ہیں۔ اس بارے کچھ نہیں کہتے کہ یہ آئینی ترمیم 7 ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی سے منظور ہوئی تھی لیکن اس کی منظوری سے پہلے پنجاب اسمبلی جس میں پیپلزپارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی نے وزیر اعلی حنیف رامے کی قیادت میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد منظور کرلی تھی کیا یہ قرارداد بھٹو کی مرضی و منشا کے بغیر منظور ہوسکتی تھی؟خود بھٹو نے بھی دوسری آئینی ترمیم کی منظوری سے تین ماہ قبل 13 جون 1977 کو یہ بیان دیا تھا کہ جو شخص ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے اور آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل ہی بھٹو حکومت نے 23 جولائی کو الیکٹرنک میڈیا پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ سلام و صلوۃ پڑھنا لازمی قراردے دیا تھا۔
ناشر: جمہوری پبلیکیشنز لاہور

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply