اسلام میں شورائیت کا حکم۔مفتی محمد عمران

 خلافت ہو یا اسلامی جمہوریت ہر دو کا وصف ممتاز نظم شورائیت ہے، یہی باہم مشاورت سے نظم مملکت چلانے کا عمل خلافت وجمہوریت کو مطلق العنان بادشاہت سے الگ کرتا ہے، بایں معنی کہ خلافت وجمہوریت میں حاکم کا تعین بھی شوریٰ  سے ہوتا ہے اور نظام مملکت کو شورائی انداز سے چلایا جاتا ہے، جبکہ بادشاہت میں حاکم کا تعین موروثی اور فیصلہ کا مکمل اختیار بادشاہ کو حاصل ہوتا ہے۔ دین اسلام میں شوریٰ  کی اہمیت قرآنی نصوص ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعامل خلفاء راشدین سے واضح ہے، اور یہ مسلمانوں کے وصف خاص ہے۔ قرآنی امر شوری ٰ کے بارے میں چند اہم مسائل پر باہم غور وخوض ضروری ہے،

1۔شوری کا حکم

2۔شوری کا دائرہ کار،

3۔شوری کا طریقہ کار،

4۔شوری کے فیصلے کی شرعی حیثیت۔

1۔ شوری کا حکم:

قرآن کریم میں غزوہ احد کے موقع  پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : وشاورہم فی الامر اور ان مؤمنین کے ساتھ اہم امور میں مشاورت کیجیے۔ (القرآن) اس امر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ مشورہ لینے کا حکم واجب ہے یا مستحب؟ امام شافعی رحمہ اللہ اس امر کو ندب پر محمول کرتے ہیں ، امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: فقوله : { وَشَاوِرْهُمْ } يقتضي الوجوب ، وحمل الشافعي رحمه الله ذلك على الندب. جبکہ جمہور امت کا موقف وجوب کا ہے، جیسے امام رازی نے یقتضی الوجوب سے اپنا میلان بھی ظاہر کیا ہے،

چنانچہ ابن جریر طبری، امام جصاص حنفی، امام بغوی، ابن جوزی،ا مام رازی، امام قرطبی، علامہ نسفی ، علاؤ الدین بغدادی صاحب خازن، ابن کثیر، قاضی ثناء اللہ پانی پتی اور علامہ آلوسی سب نے اپنی تفسیروں میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ لینے کا حکم اس لیے دیا گیا ہےکہ امت کے لیے شورائیت کی سنت قائم ہوجائے، تاکہ آئندہ امت آمریت کے راستے پر نہ چلے اور شورائیت کے شرعی قاعدے پر مضبوطی کےساتھ قائم رہے۔ جلال الدین سیوطی نے الخصائص الکبری میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: باب اختصاصہ بوجوب المشاورة ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مشورہ کا وجوب باقی انبیاء کے اعتبار سے اختصاص ہے۔

قاضی عبد الحق ابن عطیہ غرناطی فرماتے ہیں: والشوری من قواعد الشریعة وعزائم الاحکام ۔ شوائیت شریعت کا بنیادی قاعدہ اور لازمی قانون ہے ۔ (تفسیر قرطبی) ممتاز فقیہ ابن خویزمنداد فرماتے ہیں: دینی امور میں حکمران پر اہل علم سے مشورہ لینا واجب ہے، جنگی امور میں ماہرین جنگ کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیے، عوام کی بہبود کے کاموں میں عوامی نمائندوں  سے مشورہ لینا چاہیے اور ملکی مصالح یعنی ترقیاتی اور تعمیراتی امور میں سیکرٹریوں ، وزیروں اورماتحت حکام سے مشورہ لینا چاہیے۔ (تفسیر قرطبی: 250\4)

علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہے: لا عنی لولی الامر عن المشاورة۔ حکمران کے لیے مشاورت سے اپنے آح کو مستغنی سمجھنا جائز نہیں ہے۔ (السیاسیة الشرعیة فصل سابع) شیخ محمد عبدہ فرماتے ہیں: شورائیت شریعت کے واجبات میں ایک واجبی امر ہے، اگر ہم اس حکم کو چھوڑ دیں جس کو شریعت میں واجب قرار دیا گیا ہے، توہم کھلے گناہ کا ارتکاب کریں گے۔ (نظام الحکم فی الشریعة والتاریخ) اصول فقہ کے ماہر فقیہ عبد الکریم زیدان لکھتے ہے: سربراہ ریاست جب مشاورت کے حکم پر عمل کرنا چھوڑ دے تو اس کو اقتدار سے ہٹا دینا چاہیے ، مشاورت اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اصل اختیارات امت مسلمہ کے پاس ہے، اور سربراہ حکومت کا وکیل ہے خود مختار اور مطلق العنان نہیں ہے۔ (اصول الدعوة 169)

مفتی اعظم پاکستان محمدشفیع رحمہ اللہ فرماتے ہے: اس بارہ میں قرآن کریم کے ارشادات مذکورہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں آراء   مختلف ہوسکتی ہیں ، خواہ  وہ حکم وحکومت سے متعلق ہو یا کسی دوسرے معاملہ سے باہمی مشورہ لینا رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سنت اور دنیا وآخرت میں باعث برکات ہے، قرآن وحدیث میں اس کی تائید آئی ہے ، او رجن معاملات کا تعلق عوام سے ہے جیسے معاملات حکومت ان میں مشورہ لینا واجب ہے۔ ابن کثیر (معارف القرآن 2\ 219)

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں،  شوری  سے  مشورہ  لینے کی ضرورت صرف خلیفہ کے تقرر  ہی  کے لیے نہیں ہے، بلکہ خلیفہ بن جانے کے بعد کاروبار حکومت چلانے میں بھی خلیفہ کا فرض ہے  کہ  شوری کے اصول پر کام کرے، اور مشورے سے حکومت چلائے، یہ بات امام کے ذمہ واجب ہے، یہاں تک کہ فقہاء کرام نے یہ فرمایا ہے ، اگر کوئی امام حکومتی امور میں مشورہ نہ کرے تو وہ اس کی وجہ سے معزولی کا مستحق ہے اور یہ بات خود قرآن کریم نے واضح فرمائی ہے۔ ارشاد ہے وشاورہم الخ۔ (اسلام اور سیاسی نظریات 248)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

محمد عمران
رئیس دار الافتاء دار السلام۔اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”اسلام میں شورائیت کا حکم۔مفتی محمد عمران

Leave a Reply to عبید اللہ Cancel reply