• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محمد بن قاسم کے بارے میں تاریخی حقائق (حصّہ اوّل)۔۔ صدیق اکبر نقوی

محمد بن قاسم کے بارے میں تاریخی حقائق (حصّہ اوّل)۔۔ صدیق اکبر نقوی

10 رمضان کے آتے ہی اکثر سوشل میڈیا پر سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کو لے کر گرما گرم بحث چل پڑتی ہے جس پر جذباتیت کا رنگ غالب رہتا ہے۔ تاریخی شعور کی کمی کے باعث ہمارے ہاں اب تک حملہ آوروں کو ہیرو یا ولن کے آئینے میں دیکھنے کا چلن جاری ہے اور حقائق کی طرف کم ہی توجہ ہوتی ہے۔ تاریخ کے عمل کو دلیل اور شواہد کے بجائے جب جذبات کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں واقعات تعصبات کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور کچھ سبق سیکھنا ممکن نہیں رہتا۔

سندھ کو فتح کرنا ہمیشہ سے عربوں کا خواب رہا تھا

ہمارے پاس جو تاریخی شواہد ہیں، ان کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کا ارادہ ابتداء ہی سے سندھ فتح کرنے کا تھا مگر حالات کے ناسازگار ہونے کی وجہ سے وہ انتظار کرتے رہے۔ جب عربوں نے شام و عراق اور ایران کو فتح کیا، تو سندھ کی فتح بھی ان کے منصوبہ میں شامل تھی۔ اس دور میں دولت زراعت سے پیدا ہوتی تھی اور وادئ سندھ بھی وادئ نیل و فرات کی طرح دولت سے مالا مال تھی۔ حضرت عمر کے زمانہ میں مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر دیبل پر حملہ کیا گیا جو ناکام رہا۔ حضرت عثمان کے زمانے میں حضرت حکیم بن جبلہ عبدی سمندر کے راستے بلوچستان و سندھ کے مشرقی حصہ کو دیکھ کر آئے اور اس کے بارے میں یہ رپورٹ دی:

”وہاں کا پانی میلا اور پھل کھٹے ہیں۔ زمین پتھریلی ہے، مٹی شوریدہ ہے اور باشندے لڑاکے ہیں۔ اگر تھوڑا لشکر جائے گا، تو جلد تباہ ہوجائے گا اگر زیادہ جائے گا، تو بھوکوں مرئے گا۔“( احمدبن یحیی بلاذری، فتوح البلدان، جلد3، ص530. )

چچ نامہ نے حضرت علیؑ کے بارے میں حکیم ابن جبلہ کا ایک قصیدہ بھی نقل کیا ہے:

ليس الرزيہ بالدينار نفقدۃ

ان الرزيہ فقد العلم والحكم

وأن أشرف من اودي الزمان بہ

أهل العفاف و أهل الجود والكريم

(چچ نامہ، سندھی ادبی بورڈ، صفحہ 102، جامشورو،2018ء)

حضرت علیؑ کے زمانہٴ حکومت (656ء۔ 661ء) میں مسلمان مکران تک آئے مگر سیاسی وجوہات کی بناء پر آگے نہیں بڑھے۔ امیر معاویہ کے زمانہ (661ء۔ 680ء) میں فتوحات کے لیے مہمات بھیجی گئیں، مگر فوج نے مکران میں شکست کھائی اور آگے نہ بڑھ سکی۔ دور اُمیہ میں امیر معاویہ سے لے کر ولید (705ء۔715ء) کے عہد تک عرب مکران کابل اور قندھار کے علاقوں میں برابر مصروف جنگ رہے۔ چوں کہ یہ پہاڑی علاقے تھے اور یہاں کے باشندے قبائل جنگ جوتھے، اس لیے وہ برابر عربوں کے اقتدار کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ اس لیے عربوں کو اس کا موقع نہیں ملا کہ خشکی کے راستے سندھ پر حملہ کرتے۔ ولید کے عہد میں جب مکران و کابل پر ان کا تسلط قائم ہوگیا، تو خشکی کے راستوں کے ذریعہ سندھ کی سرحد سلطنت امویہ سے مل گئی اور ان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اپنی فتوحات کو سندھ تک بڑھائیں۔

حجاج بن یوسف کا کردار

سندھ کی فتح کا واقعہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کی خلافت (705ء۔715ء) کے دوران پیش آیا۔ حجاج بن یوسف خلافت کے مشرقی صوبوں کا گورنر تھا۔ اس کے نزدیک اموی خاندان کا استحکام اور اُس کی طاقت و قوت میں اضافہ اس کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ چنانچہ اس نے حجاز پر حملہ کر کے حضرت ابوبکر کے نواسے حضرت عبد اللہ بن زبیر کی حکومت ختم کی اور ان کی لاش مسجد الحرام میں عبرت کے لیے ٹانگی۔ پھر وہ عراق گیا اور حضرت ابوبکر کے بھانجے کے بیٹے عبد الرحمن بن محمد بن الاشعث کی بغاوت کو کچلا۔ ان کے ساتھی حضرت عطیہ ابن سعد عوفی ایران بھاگ گئے۔ اس وقت حجاج کا بھتیجا اور داماد محمد بن قاسم شیراز کا گورنر تھا۔ حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ عطیہ بن سعد کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو گرفتار کر کے حجاج کا حکم سنایا۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے(ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد 4، صفحہ 511

چچ نامہ کی مظلوم لڑکی

عام طور سے پاکستانی مؤرخین سندھ پر عربوں کے حملہ کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سر اندیپ سے کچھ مسلمان عورتیں اور بچے جہازوں میں سوار ہوکر جب بندر گاہ دیبل پر پہنچے، تو یہاں بحری قزاقوں نے ان جہازوں کو لوٹ لیا۔ جب عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے لے جایا جا رہا تھا، تو ایک لڑکی نے فریاد کرتے ہوئے حجاج سے مدد طلب کی۔ جب حجاج کو اس کی اطلاع ملی، تو وہ اس سے انتہائی متاثر ہوا اور اس نے فوراً سندھ کی فتح کا ارادہ کرلیا۔ عربوں کی لکھی گئی فتحِ سندھ کی روداد ”چچ نامہ“ کے ان بیانات کو آنے والے مؤرخین نے اسی طرح بلا کم وکاست نقل کردیا اور سندھ پر عربوں کے حملے کا کوئی تجزیہ نہیں کیا۔ اول تو اس واقعہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تمام عورتیں، بچے اور مرد گرفتار کرلئے گئے، تو پھر اس خبر کو حجاج تک پہنچانے والا کون تھا؟ کیوں کہ کسی ایک شخص کا گرفتاری سے بچنا اور پھر سندھ سے بصرہ تک کا بحری یا خشکی کا سفر کرنا آسان کام نہیں تھا۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ اس قسم کی خبر حجاج کو پہنچی، تو حجاج کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر راجا داہر کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی خرابی صرف یہ واقعہ ہوا تھا اور دوسری سیاسی وجوہات نہیں ہوئیں، تو کیا حجاج کو ایک لڑکی کی فریاد اتنا متاثر کرسکتی تھی کہ وہ ایک بڑی فوج خلیفہ کی مرضی کے خلاف اور مالی مشکلات کے باوجود سندھ بھیجتا؟ حجاج جذبات سے عاری ایک سیاست دان تھا اور وقتی جوش کے سبب وہ اس قدر اہم فیصلہ نہیں کرتا تھا۔ اس نے اپنے اقتدار کے زمانے میں جس طرح ہزاروں افراد کو جیل میں ڈالا اور سیکڑوں کو قتل کیا۔ اسی کے سیاسی عزائم میں ایک لڑکی کی فریاد کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

عرب تاجروں کے مفادات

عرب تاجر تجارت کی غرض سے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں آتے جاتے تھے اور جگہ جگہ ان کی نو آبادیاں قائم تھیں۔ ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں ”چیرامن مسجد“ کے نام سے ایک ایسی مسجد بھی موجود ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانے سے منسوب کی جاتی ہے۔ جزیرہ سراندیپ (لنکا) میں بھی عرب مسلمان تاجر آباد تھے۔ اس لیے عرب تاجروں کے جہازوں پر بحری قزاقوں کے حملے نے حکومت کے سامنے یہ مسئلہ پیدا کیا کہ اگر سمندری راستوں کی حفاظت نہیں کی گئی، تو اس کا اثر تجارت پر ہوگا۔ اس لیے حجاج نے فوراً راجا داہر سے خط و کتابت کرکے جہازوں کے لوٹ کے بارے میں معلومات کیں لیکن، چچ نامہ کے مطابق، راجا داہر نے سرے سے اس بات سے ہی انکار کردیا کہ یہ جہاز اس کے اشارے پر لوٹے گئے ہیں یا اُس کا اثر و رسوخ ان قزاقوں پر ہے۔ راجا داہر کے اس جواب کے بعد حجاج نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ سندھ پر حملہ کرکے اسے فتح کرے تاکہ دیبل کی بندر گاہ اور سمندر کا راستہ مسلمان تاجروں کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ اس ضمن میں مسلمان عورتوں اور بچوں کی گرفتاری اور ایک لڑکی کی فریاد ایسا قصہ تھا جس سے عربوں میں جوش پیدا کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی تشہیر سے راجا داہر کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور مالِ غنیمت کے لالچ کے ساتھ ساتھ سندھ پر حملہ کرنے کا اخلاقی جواز بھی پیدا ہوگیا۔

پارسی اور عرب باغیوں کی سرکوبی

اس کے علاوہ بھی مؤرخین نے سندھ پر عربوں کے حملہ کی وجوہات تلاش کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ سندھ کے راجا نے ایرانیوں اور عربوں کی جنگوں میں ایرانیوں کی مدد کی تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کو سندھ پر حملے کا حق حاصل ہوچکا تھا یا یہ کہ بہت سے پارسیوں نے عربوں سے شکست کھا کر سندھ میں پناہ لی تھی۔ وہ اس علاقے میں رہتے ہوئے عربوں سے آزادی کے حصول کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اسی طرح وہ عرب جو بنی امیہ کے طرزِ حکومت سے خوش نہ تھے، مثلاً اعلافی، وہ یا تو خراسان میں پناہ لینے جاتے تھے یا سندھ آ جاتے تھے۔

کیا محمد بن قاسم سندھ میں سادات کو قتل کرنے آیا تھا؟

محمد بن قاسم نے 711ء میں سندھ پر حملہ کیا اور 715ء میں نئے خلیفہ نے اسے سزائے موت دے دی تھی۔ اس وقت امام حسین کی نسل سے صرف حضرت علی زین العابدین اور انکے بچے موجود تھے۔ امام حسن کی اولاد بھی چند گنے چنے نفوس پر مشتمل تھی۔ ان کے فرزندوں کے سندھ آنے کا کوئی ذکر تاریخ میں نہیں آیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اس دور کے جو مسلمان جو بنی امیہ کی حکومت سے تنگ ہوتے تھے، ان میں خراسان اور قندھار کی طرف جانے کا رجحان نظر آتا ہے۔ تاہم بنی امیہ سے تنگ آ کر کچھ افراد کا سندھ آنا بھی خارج از امکان نہیں۔ لیکن ان کی سرکوبی کو سندھ پر حملےکا بنیادی مقصد قرار دینے جیسے بڑے دعوے کیلئے مضبوط شواہد کی ضرورت ہے جو موجود نہیں ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی کو اگر تاریخ میں ڈھونڈا جائے تو 769ء عیسوی میں محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبداللہ اشتر کا ذکر ملتا ہے جنہیں عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے قتل کرایا تھا۔ تاریخ طبری کے مطابق یہ واقعہ 151 ہجری میں پیش آیا۔ ( تاریخ‌طبری‌، جلد6، ص289-292.) چنانچہ عبداللہ شاہ غازی اور انکے ساتھیوں کے قتل کو بھی محمد بن قاسم سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

صدیق اکبر نقوی
عن عباد بن عبداللہ قال علی انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر (سنن ابن ماجہ، ١٢٠)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply