رودادِ سفر (23) روزہ اور عہد الست۔۔شاکر ظہیر

رمضان کا مہینہ ایوو ( yiwu ) شہر میں اپنی ایک الگ بہار دکھاتا ہے ۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ آپ پاکستان سے باہر نکل جائیں اور کسی بھی غیر مسلم ملک میں چلیں جائیں، رمضان کا ایک اور ہی روپ   آپ کو نظر آئے گا ۔ سارے اس کی بے حرمتی کر رہے ہوں گے ، بے حرمتی ہمارے علما  کے نقطہ نظر سے اور آپ اپنے رب ، اپنے خالق کا حکم بجا رہے ہوں گے اور یہ محسوس کریں گے آپ اس خالق کے فرمانبردار ہیں اور وہ ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے ۔ جس سے آپ کو پیار ہے ، ہر لمحہ آپ کے ساتھ ہے ۔ ہم رمضان میں مارکیٹ جاتے تو چائنیز دوکاندار گرم پانی کا گلاس رکھتے تھے اور ہم معذرت کرتے کہ شکریہ اور کئی دفعہ وہ پوچھ بھی لیتے کہ کافی پیش کروں اور ہمارا جواب شکریے ہی میں ہوتا ۔ گرم پانی اس لیے کہ چائنا میں پانی گرم ہی پیا جاتا ہے اور میں اپنی بیوی سے مذاق میں کہتا تھا کہ جہنم میں بھی لوگوں کو ایسا ہی گرم کھولتا پانی پینے کو ملے گا ،تم چائنیز نے تو اس کی پریکٹس یہیں شروع کر دی ہے اور وہ جواب میں اس کے فوائد گنوانا شروع کر دیتی تھی ۔ جن دوکانداروں کے پاس اکثر جاتے رہتے تھے وہ وجہ بھی پوچھ لیتے کہ آج کیا بات ہے تم تو جب بھی آتے ہو ہمارے پاس شوق سے کافی پیتے ہو آج کیا ہوا ہے ، ناراض ہو ۔ مجھے پھر جواب میں بتانا پڑتا کہ میں روزے سے ہوں ،اس لیے مقررہ  وقت تک کھانا پینا منع ہے ۔ سوال ہوتا کس نے منع کیا ، کیوں منع کیا ہے ، وہ کون سا دیکھ رہا ہے ، میں جواب دیتا کہ وہ ( خالق ) ہر وقت میرے ساتھ ہوتا ہے اور میں نے اس سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ میں اس کے حکم کی تعمیل کروں گا ، میں یہ وعدہ خلافی نہیں کر سکتا ، میں اس کا وفادار ہوں ۔ پھر پوچھتے بھوک یا پیاس نہیں لگتی ، گرمی بہت ہے ۔ یہاں جس نے روزہ رکھنا  ہے،اپنے رب سے فرمانبرداری کے اظہار کےلیے رکھے گا ۔ وہ کسی معاشرے کے بیرونی دباؤ میں نہیں بلکہ اپنی دلی خوشی کےلیے اپنے رب کے ساتھ تعلق ہی کی وجہ سے رکھے گا ۔ جس نے نہیں رکھنا اس کو کوئی زبردستی رکھوا نہیں سکتا ۔ یعنی جو خدا کی منشاء تھی کہ یہ مخلوق اپنی چوائس سے مجھے پہچانے ، میرے قریب آئے ، میرا شکر ادا کرے ، مجھے اپنے قریب محسوس کرے ، وہ منشاء یہاں پوری ہوتی ہے ۔ جو روزہ نہیں رکھتا وہ خود خدا کے آگے جوابدہ ہے ، اپنا عذر وہ خود خدا کے سامنے پیش کرے گا اور عذر کو قبول یا نامنظور کرنے والا وہی  ہے اور صلہ بھی اسی نے دینا ہے ، کوئی خدا کا نمائندہ موجود نہیں جو زبردستی اس حکم کو اس پر نافذ کرے ۔ عجیب بات ہے کوئی دیکھ نہیں رہا اور میں اپنی خوشی سے اس کا حکم سمجھ کر قبول کر رہا ہوں ۔ اگر عام حالات میں مذہب کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو عجیب ہی بات محسوس ہوتی ہے ۔

پاکستان میں تو زبردستی ہی ہوتی ہے ۔ معاشرے کا دباؤ ، کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا ، ہوٹل بند ۔ میں سمجھا ہوں ہمارے ہاں تو یہ سب کچھ تو خدا کی سکیم ہی کے خلاف ہے ۔ اصل بات ہی یہ ہے سب کچھ دستیاب ہو اور آپ اس سے رک جائیں ۔

یہ بہترین تعارف ہوتا تھا اپنے مذہب کا اگر آپ اچھے طریقے سے پیش کر سکیں ۔ کیونکہ یہ ان غیر مسلموں کےلیے ایک نئی بات ہی ہوتی ہے کہ کوئی اَن دیکھے خدا کے ساتھ اپنے ہی کئے وعدے کو توڑنے کےلیے تیار نہیں ۔ اور خدا بھی ایسا جسے وہ ماننے والا انسان خود بھی اپنے  ادراک میں نہیں لا سکتا، لیکن اسے اپنے قریب ہی محسوس کرتا ہے ۔ یہ کیسا خدا ہے ۔ ویسے تو ان ( چائنیز ) کے خدا بھی تخیلاتی ہی ہیں ۔ اور ان کے مذہب میں ارواح کی پوجا بھی کی جاتی ہے ۔ سوال یہ تھا یہ ارواح بھی کسی نے دیکھی ہیں کبھی ۔ یہ ارواح میری حواس خمسہ کے دائرے سے باہر ہیں ۔ ان   ارواح کے ہونے کا ثبوت مجھے کوئی وہ شخصیت دے جس کی حواس خمسہ مجھے سے اعلیٰ  اور برتر ہیں ۔ بس یہ بھی انسان کا احساس ہی ہے کہ وہ کچھ بھی کر لے لیکن وہ اپنی اس محدودیت سے نکل نہیں سکتا اور وہ کہیں بھی چلا جائے پھر بھی وہ کمزور ہی ہے اور کوئی اس سے برتر و اعلیٰ  ہستی موجود ہے ۔

اور یہ جو افطار کا اہتمام ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ بس سارے دن کی کسر نکال دینی ہے کہ روزہ رکھ کر ہم نے بہت تیر مار لیا ، یہ وہاں ہمارے پاس ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ۔ موٹر سائیکل پر گھر کی طرف جا رہے ہیں پانی کی بوتل خرید لی یا ٹافی یا کجھور جیب میں رکھ لی اور وقت پر کھول کر روزہ افطار کر لیا اور آگے چل دیے ۔ اذان تو مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر ہوتی نہیں تھی اس لیے اس کا حل یہ نکالا گیا کہ سحر اور افطار کے اوقات کا پمفلٹ مختلف لوگ مسجد میں بانٹ دیتے تھے ۔

میری بیوی نے بھی روزے سے اجنبیت ظاہر نہیں کی بلکہ شوق سے اٹھ کر سحری بناتی تھی اور میں بھی ساتھ ہاتھ بٹاتا تھا ۔ اور افطاری اگر گھر میں ہو تو شوق سے سب کچھ بنانا اس نے سیکھا تھا اور بناتی اور اکثر اپنی کسی نہ کسی نو مسلم سہیلی کو بلا لیتی کبھی اس نے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا بلکہ شوق سے یہ سب کچھ ہوتا ۔ ایوو ( yiwu ) کی مسجد میں بھی سحری اور افطاری کا انتظام کیا جاتا اور خاص کر جمعہ والے دن تو اکثر لوگ جمعہ کی نماز پڑھ کر وہیں رہتے اور تراویح کے نوافل ادا کر کے گھر جاتے تھے ۔ بچے بھی ساتھ ہوتے اور وہیں کھیلتے رہتے ۔ میری بیوی ماریا بھی کبھی کسی سہیلی کے ساتھ پروگرام بن جائے تو افطاری مسجد ہی میں کرتی اور اگر میں بھی وہیں ہوں تو ٹھیک ورنہ فون کر دیتی اور میں رات آ کر ساتھ لے جاتا ۔ پھر گھر پہنچ کر تفتیش بھی کی جاتی تھی ، افطاری کہاں کی ساتھ کون کون تھا اور کھانے میں کیا کیا تھا ۔ ویسے ایسے دن جب وہ افطاری مسجد میں یا کسی سہیلی کے گھر کرتی یا اس نے دو تین سہیلیوں کو گھر افطاری کےلیے بلایا ہو میں اپنے یمنی دوست کے ساتھ ان کے بزنس کمیونٹی کے آفس چلا جاتا جو ایک کافی بڑے فلیٹ میں انہوں نے بنایا تھا ، وہیں انہوں نے اکٹھی افطاری کا بندوبست کیا ہوتا ۔ جن جن کی فیملیاں وہیں چائنا میں ساتھ تھیں وہ گھر سے بیس پچیس لوگوں کےلیے پکا کر لیتے آتے تھے ۔ اسی طرح کوئی فروٹ اور کوئی کچھ اور لے آتا اور سارے مل بیٹھ کر کھاتے تھے اور ایک دوسرے کے حالات سے بھی واقف ہو جاتے ۔ وہاں میں نے پہلی دفعہ یمنی کوفتے اور چپلی کباب بھی کھائے ، باقی نان وغیرہ اور چاول تو تھے ہی ۔ وہیں مغرب کی نماز اکٹھی پڑھتے ۔

یہی کچھ میں نے تھائی لینڈ میں بھی دیکھا تھا ۔ مسلم ہوٹل سحری اور افطاری کے وقت کھلتے اور باری باری سب کےلیے فری سحری اور افطاری کا بندوبست ہوتا تھا ۔
لیکن مجھے آج تک اس بات سے حیرت ہوتی ہے کہ میری بیوی جو پہلے کنفیوشس تھی یا ( Atheist ) اتھیسٹ نظام تعلیم میں پڑھی اس نے اس روزے کے متعلق مجھ سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا تھا ۔ یہ خالق سے کیا گیا وعدہ جسے عہد الست قرآن نے کہا، کیا وہ اس کے شعور میں موجود تھا ۔؟

میری بیوی کی سہیلی ین ین (Ying Ying ) جو نو مسلم تھی ایک عراقی کے آفس میں کام کرتی تھی ۔ ایک دن اس کا فون آیا کہ اس کے باس نے کہا ہے کہ افطاری ان کے آفس میں کرنی ہے ۔ میں ، بیٹی حنا اور اپنی بیوی ماریا کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر ان کے آفس چلے گئے ۔ میری بیوی اور ین ین ( Ying Ying ) نے مل کر کھانا بنایا اور میں نے دودھ سوڈا ۔ تعارف حاصل کیا تو معلوم ہوا کہ وہ محترم عراقی شیعہ ہیں ۔ کچھ دیر کے بعد ایک ازبک لڑکی بھی آ گئی ۔ ین ین ( Ying Ying ) نے بتایا کہ اس کے باس نے اس کے ساتھ تین مہینے کا نکاح کیا ہے اور یہ یہاں سٹوڈنٹ ویزے پر ہے ۔ میری بیوی نے ین ین ( Ying Ying) سے پوچھا تین مہینے کا نکاح کون سا ہوتا ہے ۔ اس نے کہا مجھے بھی نہیں معلوم بس رقم طہ کی مولوی اور دو دوستوں کو بیٹھایا اور نکاح پڑھا دیا ۔ میں ان جان بنا بیٹھا رہا ۔ رات واپس گھر آئے تو بیوی نے خود ہی بات چھڑی کہ وہ ازبک لڑکی کہہ رہی تھی پیسے دے دیے ہیں اب جو کرنا ہے کرو یہ مولوی کو بلا کر کیا دم پڑھایا ہے ۔ میری بیوی یہ بھی بتا رہی تھی کہ اس سے پہلے وہ عراقی ایک اور ازبک کے ساتھ تین ماہ کے نکاح میں رہا ۔ شکر ہے میری بیٹی حنا نے مجھ سے ضد لگانا شروع کر دی کہ میں باتیں نہ کروں اور اس کے ساتھ لپٹ کر سو جاؤں ۔ ورنہ امتحان کا پرچہ میرا سامنے پڑا تھا ۔ اور اہم سوال یہ تھا کہ یہ کون سا رشتہ ہے جسے دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ قبول کرتا ہے اور جس سے ایک خاندان وجود میں آتا ہے جو بقاء انسانی کےلیے ضروری ہے ۔ اس میں اور ایک داشتہ رکھنے میں کیا فرق ہے ۔ کیا فرق صرف یہ ہے کہ اسے مذہب کے لبادہ پہنایا گیا ہے ۔ اگر نہ پہنایا جائے تو کیا کہا جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply