• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خون کبھی رائیگاں نہیں بھی جاتا (ناظم جوکھیو کی یاد میں)۔۔محمد وقاص رشید

خون کبھی رائیگاں نہیں بھی جاتا (ناظم جوکھیو کی یاد میں)۔۔محمد وقاص رشید

پاکستان میں بہت سارے دوسرے جملوں کی طرح ایک جملہ اکثر بولا جاتا ہے جو کہ چہار سو پھیلے سفاک حقائق کے بالکل بر خلاف ہے. اور وہ ہے “خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا”. اسی لیے میں نے انتہائی دکھے ہوئے دل کے ساتھ عنوان میں لکھا کہ خون کبھی رائیگاں نہیں بھی جاتا ؟.
ایک اور فرعونیت کی داستان کی کالک اس ریاست کے منہ پر مل دی گئی ہے. ایک اور نا انصافی کی کہانی پہلے سے پراگندہ انسانی حقوق کی تاریخ کو اور آلودہ کر چکی. آپ ایک لمحے کو رک کر سوچیں کہ کیا ستم ظریفی ہے کہ خدا کی طرف سے سب کو ایک ہی دفعہ ملنے والی کسی کی زندگی اس سے چھین لی جائے پھر اس کے لواحقین پر حقِ انصاف سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جائے اور پھر جب وہ مجبور و بے بس ہو جائیں تو پھر انہیں معاشرہ نما جنگل میں یوں بدنام کر دیا جائے کہ پیسے لے کر صلح کر لی. الامان الحفیظ
ملیر میمن گوٹھ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ایک ایم این اے جام عبدالکریم اور ایم پی اے جام اویس کے ہاں کچھ بیرونِ ملک کے مہمان شکار کرنے آتے ہیں اور گاؤں کو جانے والا راستہ بند کر کے شکار کرنے لگتے ہیں. ایسے میں ایک مقامی صحافی ناظم جوکھیو گاؤں جانے کے لیے وہاں پہنچتا ہے جسے راستہ بند ملتا ہے. وہ اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر کے گاڑی کے قریب جاتا ہے اور ان درندوں سے راستہ کھولنے اور غیر قانونی شکار بند کرنے کا کہتا ہے. انکے بات نہ ماننے پر وہ ویڈیو بنا کر فیس بک پر ڈالتا ہے اور وہی ویڈیو اسکی زندگی کی آخری ویڈیو ثابت ہوتی ہے.
جام عبدالکریم نامی فرعون کو جب پتا چلتا ہے تو وہ اسے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں. جسے ناظم جوکھیو ماننے سے انکار کر دیتا ہے. ناظم جوکھیو کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگتی ہیں جس پر وہ اپنے ایک وکیل دوست اور پولیس سے رابطہ کرتا ہے. اسکا وکیل دوست اس ضمن میں اسکی حفاظت کے لیے عدالت سے بھی رجوع کر لیتا ہے.
وقوعہ کی شام جام عبدالکریم اور جام اویس ناظم جوکھیو کو اسکے بھائی افضل جوکھیو کے توسط سے اسے ڈیرے پر بلاتے ہیں. ناظم جوکھیو اپنے دوست وکیل کو اطلاع کر کے اپنے بھائی افضل جوکھیو کے ساتھ وہاں چلا جاتا ہے. اور وہاں ناظم سےزبردستی موبائل لے کر اسکی فیس بک سے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دی جاتی ہے. لیکن فرعونیت یہاں ختم نہیں ہوتی. ان دونوں وڈیروں کے ملازمین پہلے اس پر شدید تشدد کرتے ہیں پھر وہ خود ناظم جوکھیو پر پِل پڑتے ہیں اور مار مار کر اسے جاں بہ لب حالت میں ایک کمرے میں بند کر کے اسکے بھائی کو وہاں سے بھیج دیتے ہیں.
اور اگلے دن ناظم جوکھیو ایک بیوہ اور چار بچوں کو اس دنیا میں قاتل فرعونوں کے مزید جبر واستبداد کا نشانہ بننے کے لیے تنِ تنہا چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتا ہے.
یہاں جنگل کے قانون کا اندازہ لگائیے کہ کیس پورے ملک میں مشہور ہوتا ہے. پوری قوم   اس بربریت پر تڑپ اٹھتی ہے اور سوشل میڈیا پر یہ کیس ایک وائرل سٹوری بن جاتا ہے. لیکن قانونی و عدالتی نظام کی پراگندگی کے سائے میں پلتی قومی بد بختی کا عالم دیکھیے کہ سندھ کے ان وڈیروں پیپلزپارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے کے براہِ راست قاتل ہونے پر انکی حریف وفاقی حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے اس کیس میں دلچسپی لینے اور وزیرِ داخلہ تک کے بیانات کے باوجود ناظم جوکھیو کی روح قرار نہ پا سکی. اسکے بچوں کی یتیمی کے زخم پر انصاف کا مرہم نہ رکھا جا سکا. اور اسکی اپنے حق کے لیے پر عزم بیوہ کے سر سے خاوند کا سایہ چھن جانے کے بعد عدالت نے بھی اسکے سر پر عدل کا ہاتھ نہ رکھا.
یہ ظلم و جبر کی داستان اپنے دامن میں اس معاشرے نما جنگل کی وحشت کا ہر پہلو سمیٹے ہوئے ہے. ہماری اجتماعی و انفرادی سفاکیت کا زاویہ اس میں مضمر ہے.
ناظم جوکھیو نے پسند کی شادی کر رکھی تھی جسکی وجہ سے اسکی بیوہ بے چاری کو نہ اپنے گھر والے پسند کرتے تھے نہ ہی سسرال والے. ناظم جوکھیو کا بھائی جس نے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے تھے کہ وہ کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گا. خدا جانے مجبور کر دیا گیا یا خرید لیا گیا بہرحال خبریں دونوں طرح کی موجود ہیں. سسرال والوں سے مایوس ہو کر جب ناظم جوکھیو کی مظلوم و بے سہارا بیوہ نے اپنے ماں باپ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو پسند کی شادی کی وجہ سے پہلے سے دل میں یہ رنج بٹھائے ہوئے اسکے گھر والوں نے اس شرط پر اسے سہارا دینے کا عندیہ دیا کہ اسے انصاف کے حق سے دستبردار ہونا ہو گا.
آپ اندازہ لگائیے قارئینِ کرام اسلامی جمہوریہ ہاکستان کے قانون اور عدل و انصاف کے نظام سے لے کر سماجی رویوں تک کس قدر گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے.
ناظم جوکھیو کے چار یتیم بچوں اور اسکی بیوہ، ان پانچ افراد کی زندگی بھر کی آہیں کراہیں محرومیاں اور سسکیاں یہاں کے سفاک سیاسی نظام میں پی ڈی ایم کی عدم اعتماد کی تحریک کو درکار ایک ایم این اے کے ووٹ کے ساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے میں تُل کر ہلکی ثابت ہوتی ہیں. بے وقعت و نامراد ٹھہرتی ہیں.
جبر و استبداد کے نتیجے میں قبیح ترین معافی نامہ حاصل کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پاک سرزمین پر فوری طور قاتل وڈیرا جام عبدالکریم دبئی سے واپس باب الاسلام سندھ کی دھرتی پر آتا ہے تو پیپلزپارٹی کے وزرا اسکا استقبال کرتے ہیں.
خدا کے نام پر بننے والی اس نام نہاد اسلامی جمہوریہ ریاست میں اس وقت یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے جب عدل و انصاف سے مایوس ہو کر زندگی کے بوجھ تلے دب کر مظلوم و مقہور لوگ، کوئی آزردہ روح بے سہارا بیوہ کوئی مفلوک الحال یتیم کوئی دکھیاری ماں کوئی بے بس بوڑھا باپ اپنے مقتول کا حقِ انصاف اور خون بہا جبری طور پر معاف کر کے یہ کہتا ہے کہ میں اپنا معاملہ خدا کی عدالت پر چھوڑتا ہوں. لیکن مشکل یہ ہے کہ اس عدالت کے دروازے تلک زندگی کو بھوک سے نچڑے ہوئے نحیف و نزار کاندھوں پر اٹھا کر چلنا بہت کربناک ہے. رگڑتی ایڑھیوں کے زخم اور گھسٹتے پیروں کے چھالے چیخ چیخ کر دہائی دیتے ہیں کوئی سنتا نہیں. جھکے ہوئے سر خون بہاتی آنکھوں کو اٹھا کر آسمان کیطرف دیکھ کر یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ…… “وہ عدالت کب لگے گی خدایا “۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply