کیا صرف عمران خان بدتمیز ہے؟۔۔حسان عالمگیر عباسی

جبر کا دور ہے۔ الزام تراشیاں ہیں۔ عمران خان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی کمزور ہے لیکن یہ کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ اپنی اپنی قیادتیں کہاں کھڑی ہیں؟ کل پشتو میں خان صاحب کی بیوی کو لونڈی کہا گیا۔ کہنے والے روایتی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں۔ علی محمد خان نے آخری تقریر میں جہاں اپوزیشن پہ توپیں چلائیں وہیں مہمان خانے میں بیٹھے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو بھی ان کی بدتمیزی یاد دلائی اور کہا کہ وہ جسے یہودی ایجینٹ کہتے ہیں وہ تو اپنے حساب سے اپنے مذہب کی بہترین نمایندگی کر رہا ہے۔ نام لینے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا لیکن ہمارا سیاسی کلچر آج سے نہیں دہائیوں سے فرسودہ روایات لیے پگڑیاں اچھالتا آرہا ہے۔ جو سیاسی کارکنان کل مٹھائیاں بانٹتے نظر آئے کل جب گلے میں سریا آئے گا تو اپنے اپنے حقیقی چہرے سامنے لائیں گے۔ گلے میں سریے بھی دیکھے ہیں اور ان کی سختیوں کے بھی گواہ ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ انصاف بیچنے والے تبھی ایکسپوز ہو گئے تھے جب جیو کی ثنا میر کے آنسوئوں دنیا دیکھ رہی تھی لیکن فیض آباد کی بندش اور رکشوں کو کلمہ نہ پڑھنے پہ جلانے کا کام کسی اور سے لیا گیا تھا۔ انتخابات کے قریب پہنچتے ہی ووٹوں کو خریدنا اور اپنوں کو نوازنے کی ریت بھی غیر اخلاقی اور تہذیب سے کوسوں دور ہے۔ نواز شریف صاحب پہ جوتا پھینکا گیا اور انھیں مذہب دشمنی کا الزام سہنا پڑا۔ عالی مقام خاکیان تو شاید تمیز نام سے بھی واقف نہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان صاحب کو پنجاب یونیورسٹی میں جس بے دردی سے ذلیل کیا گیا آج بھی تاریخ کے سیاہ کارناموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی طلباء کہتے ہیں کہ خان صاحب کو سیدھا کرنا ہے تو پنجاب یونیورسٹی بھیجا جائے یعنی چوریاں بھی چل رہیں اور سینا زوری بھی زوروں پہ ہے۔ طلباء اداروں میں اپنے حقوق کے نام پہ جس طرح ایک دوسرے کا جینا حرام کر رہے اور فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے کا حساب تو کتابوں کا طالب ہے۔ عمران خان صاحب میں یہ چیز عدم ہے لیکن اس سے یہ مطلب نکال لینا پرلے درجے کی حماقت ہے کہ باقی سب زم زم سے نہاتے ہیں۔ کل مصطفیٰ کھر اور ان کے ساتھیوں نے جیسے بزرگ کو دھویا شرم بھی شرما رہی ہونی ہے۔ نفس باالنفس ہے، ناک کے بدلے اگر ناک ہے، عین کے بدلے اگر عین ہے، اذن کا بدلہ اذن ہے تو یہ کیسے مان لیں کہ آپ زبان درازی پہ ہاتھ چلانے لگیں؟ آپ نے اپنی اوقات کیوں نہ جانی اس سے پہلے کہ آپ نے ہاتھوں کا استعمال کیا اور اور بزرگی کا خیال تک نہ آیا؟ عمران خان سے آپ یہ ضرور سوال کریں کہ وہ کیوں ناکام رہا اور مہنگائی کا طوفان کیوں لایا لیکن وہ بدتمیز ہے اور پگڑیاں اچھالتا ہے سے پہلے یاد رکھیں کہ بھٹو کی پھانسی، سید مودودی پہ زبانی کلامی حملے، بے نظیر صاحبہ پہ جملے پھینکنا، محترمہ فاطمہ جناح کے نام پہ کتیا بنا کے اس کے گلے میں لالٹین ڈالنا، اور ایسے قبیح افعال عمران خان صاحب کی بدتمیزی سے زیادہ نہیں ہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں ہیں۔ اس چیپٹر کو ایسے کلوز کریں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں لہذا بچے کچے کپڑے پھاڑنے کی بجائے پہننے کی طرف سفر کا آغاز کریں۔ رانا ثناء اللہ جیسے حضرات اور ان کی چرب زبانی یاد آئی اور ان کی واپسی ذہن میں آئی تو تاریخ کی کتاب کھنگالنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور تحریری شکل دینے کی معمولی کوشش کی۔ شیخ رشید، شہباز گل قسم کی سیاست دانوں کی زبانیں تو بے لگام ہیں اور رہیں گی لیکن شاہد خاقان عباسی صاحب نے جس طرح سیاسی مخالفین کی درگت بنائی اور ہاتھوں کے ساتھ ساتھ ٹانگوں کا سہارا بھی لیا تھا کسی بھی طرح مری کی روایات کی عکاسی نہیں کرتیں اور نہ سیاست میں ایسی کوئی گنجائش ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply